قربانی اور عشرۂ ذی الحجہ

بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم

قرآن کریم اور احادیث طیبہ سے ذوالحجہ کے 10اعمال ثابت ہیں:
۱)  نیک عمل:ارشاد نبویﷺہے: ’’اﷲ جل شانہ کی بارگاہ میں عشرۂ ذی الحجہ کے دوران نیک عمل سے بڑھ کر کوئی عمل پسندیدہ نہیں۔‘‘ (مشکوٰۃ : ص ۱۲۸)
۲)  ذکر اﷲ کی کثرت: ارشاد نبویﷺہے : ’’اﷲ تعالیٰ کے نزدیک عشرۂ ذی الحجہ سے زیادہ فضیلت والے کوئی دن نہیں اور نہ ان دنوں کے عمل سے اور کسی دن کا عمل زیادہ محبوب ہے۔ لہٰذا تم ان دنوں میں تسبیح (سبحان اللہ) و تہلیل(لا الہ الا اللہ) اور تکبیر (اللہ اکبر)و تحمید(الحمد للہ) کثرت سے کہا کرو۔‘‘ (طبرانی)
۳)  نفلی روزے: ارشاد نبویﷺہے : ’’کوئی دن ایسا نہیں ہے جس میں عبادت اﷲ تعالیٰ کے نزدیک عشرۂ ذی الحجہ سے زیادہ پسندیدہ ہو۔ کیونکہ عشرۂ ذی الحجہ میں سے ہر دن کا روزہ ایک سال کے روزوں کے برابر ہے۔۔۔ ‘‘ (مجمع الزوائد)
۴)  شب بیداری:ارشاد نبویﷺہے : ’’عشرۂ ذی الحجہ کی ہر رات کی عبادت شب قدر کی عبادت کے برابر ہے۔ ‘‘ (مجمع الزوائد)
۵)  عرفہ کا روزہ: حضرت ابوقتادہ b سے مروی ہے کہ نبی کریمﷺنے ارشاد فرمایا: ’’عرفہ کے دن روزہ رکھنے کے بارے میں مجھے اللہ تعالیٰ سے قوی اُمید ہے کہ وہ اسے گزشتہ ایک سال اور آئندہ ایک سال کے گناہوں کا کفارہ بنادے گا۔‘‘ (ترمذی: رقم الحدیث :۲۴۸ )
ذو الحجہ کی نویں یعنی عرفہ کے دن روزہ رکھنا مستحب ہے۔ (شامی: ۲/۳۷۵ سعید)
۶)  بال اور ناخن نہ کا ٹنا :ارشاد نبویﷺہے : ’’جو شخص ذوالحجہ کا چاند دیکھے اور اس کا قربانی کرنے کا بھی ارادہ ہو تو وہ اپنے بال اور ناخن نہ کاٹے۔‘‘ (مشکوٰۃ: ۲/۱۲۷)
مسئلہ:قربانی کرنے والے کے لیے مستحب ہے کہ ذوالحجہ کا چاند نظر آنے کے بعد قربانی کرنے تک نہ تووہ اپنے ناخن کترے ، نہ سر کے بال مونڈے اور نہ بغل اور ناف کے نیچے کے بال صاف کرے، بلکہ بدن کے کسی بھی حصے کے بال نہ کاٹے۔ قربانی کرنے کے بعد ناخن تراشے اور بال کٹوائے۔
مسئلہ: اگر زیر ناف اور بغل کے بالوں پر چالیس روز کا عرصہ گزر چکا ہو تو ان بالوں کی صفائی کرنا واجب ہے۔
۷)  تکبیر تشریق: نو ذوالحجہ کی فجر سے تیرہ ذوالحجہ کی عصر تک ہر فرض نماز کے بعد بالغ مرد اور عورت پر تکبیر تشریق پڑھنا واجب ہے۔ مرد تھوڑی اُونچی آواز سے اور عورتیں آہستہ آواز سے پڑھیں۔ تکبیر تشریق یہ ہے: اَللّٰہُ اَکْبَرُ اَللّٰہُ اَکْبَرُ لاَ اِلٰہَ اِلاَّاللّٰہُ وَاللّٰہُ اَکْبَرُ اَللّٰہُ اَکْبَرُ وَلِلّٰہِ الْحَمْدُ
مسئلہ: تکبیر تشریق ہر فرض نماز کے بعد صرف ایک مرتبہ کہنے کا حکم ہے اور صحیح قول کے مطابق ایک سے زیادہ مرتبہ کہنا خلاف سنت ہے۔ (شامی ، فتاویٰ دارالعلوم مدلل)
۸) شب عید الاضحی:ارشاد نبویﷺہے :’’جس شخص نے دونوں عیدوں (یعنی عید الفطر اور عید الاضحی) کی راتوں کو ثواب کا یقین رکھتے ہوئے زندہ رکھا تو اس کا دل اس دن نہ مرے گا جس دن لوگوں کے دل مردہ ہوجائیں گے۔ ‘‘ (الترغیب و الترہیب: ۲/۹۸ بحوالہ ابن ماجہ)
۹)  عیدالا ضحٰی کی نماز: عید کی نماز پڑھنے کا طریقہ یہ ہے کہ دل میں یہ نیت کرے کہ میں چھ تکبیروں کے ساتھ عید کی دورکعت واجب نماز پڑھتا ہوں۔ نیت کے مذکورہ الفاظ زبان سے کہنا ضروری نہیں،دل میں ارادہ کرلینا بھی کافی ہے۔ نیت کرکے ہاتھ باندھ لے اور ’’سبحانک اللّہم‘‘ آخر تک پڑھ کر تین مرتبہ اللہ اکبر کہے، ہر مرتبہ تکبیر تحریمہ کی طرح دونوں ہاتھ کانوں تک اٹھائے،تکبیر کے بعد ہاتھ لٹکادے، تیسری تکبیر کے بعد ہاتھ باندھ لے اور ’’اعوذ باللہ‘‘ اور’’بسم اللہ‘‘ پڑھ کر سورۂ فاتحہ اورکوئی دوسری سورۃ پڑھ کر رکوع وسجدہ کرکے کھڑا ہو، دوسری رکعت میں پہلے سورۂ فاتحہ اور سورت پڑھ لے، اس کے بعد تین تکبیریں اسی طرح کہے، لیکن یہاں تیسری تکبیر کے بعد ہاتھ نہ باندھے بلکہ لٹکائے رکھے اور پھر چوتھی تکبیر کہہ کر رکوع میں چلا جائے۔
قربانی کی فضیلت
*۔۔۔ ارشاد نبویﷺہے: ’’دس ذوالحجہ کے دن، جانور کا خون بہانے سے بڑھ کر اﷲ تعالیٰ کے ہاں بندے کا کوئی عمل بہتر نہیں ہوتا۔ یہ قربانی کے جانور قیامت کے دن اپنے سینگوں، کھروں اور بالوں سمیت آئیں گے۔ خون کے زمین پر گرنے سے پہلے اﷲ کے ہاں اس کا ایک مقام ہوتا ہے، لہٰذا تم یہ قربانی خوش دلی سے کیا کرو۔‘‘
(سنن ابن ماجہ، سنن ترمذی، وقال: حسن غریب)
*۔۔۔ارشاد نبویﷺہے: ’’قربانی تمہارے باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے۔۔۔ قربانی کے جانور کے ہر بال کے بدلے ایک نیکی ملتی ہے۔ (سنن ابن ماجہ، سنن ترمذی)
قربانی نہ کرنے کا وبال
ارشاد نبویﷺہے: ’’جس کے پاس گنجائش ہو (یعنی قربانی کا نصاب ہو) اور پھر بھی وہ قربانی نہ کرے تو وہ ہماری عیدگاہ کے قریب بھی نہ آئے۔‘‘ (الترغیب والترہیب: ۲/۱۰۰)
قربانی کے چند ضروری مسائل
قربانی کس پر واجب ہے؟
جو شخص درج ذیل کوائف کا حامل ہو اس پر قربانی واجب ہے۔ ان میں سے کوئی ایک بات بھی کم ہو تو قربانی واجب نہ ہوگی:
(۱)  وہ مسلمان ہو، غیر مسلم پر قربانی واجب نہیں۔ (۲) وہ عاقل ہو، پاگل پر قربانی واجب نہیں۔
(۳)  وہ بالغ ہو، نابالغ پر قربانی واجب نہیں۔ (۴) وہ مقیم ہو ، شرعی مسافر پر قربانی واجب نہیں۔
(۵)  قربانی کے ایام(یعنی دس ذوالحجہ کی صبح صادق سے بارہ ذوالحجہ کی مغرب تک کے عرصے) میں اس کے پاس قرضوں کو الگ کرنے کے بعد 613 گرام چاندی کی مالیت کے برابر اثاثے مہیا ہوں۔(ھندیہ: ۵/۲۹۲)
قربانی پانچ قسم کی چیزوں سے واجب ہوتی ہے:
(۱) سونا (۲) چاندی (۳) نقدی (۴) مال تجارت
(۵) روزمرہ استعمال سے زائد سامان (احسن الفتاوی)
موجودہ سال قربانی کا نصاب:
اکتوبر2013ء کے بازاری نرخ (چاندی 850روپے فی تولہ)کے مطابق ساڑھے باون تولے چاندی کی مالیت تقریباً 45,000/-روپے بنتی ہے۔(لیکن شرعاً قربانی کے لیے وہ قیمت معتبر ہے جو قربانی کے تین دنوں میں بازار میں رائج ہو۔لہٰذا ساڑھے باون تولے چاندی کی قیمت ایام قربانی میں معلوم کرکے قربانی کا فیصلہ کیاجائے)
قربانی صحیح ہونے کی شرائط:
(۱) ذبح کرنے والا شخص عاقل ہو۔
(۲) ذبح کرنے والا مسلمان یا یہودی یا عیسائی ہو۔ آتش پرست، ہندو، قادیانی اور مذہب کو نہ ماننے والے کا ذبیحہ درست نہیں۔
(۳) ذبح کرنے والا شخص مسلمان ہو تو وہ شرکیہ یا ملحدانہ عقائد نہ رکھتا ہو، ذبح کرنے والا مسلمان شخص ایسا کوئی عقیدہ رکھتا ہو تو جانور حرام ہوجاتا ہے۔
(۴) ذبح کرنے والا یہودی یا عیسائی ہو تو وہ دہریہ (مذہب کو نہ ماننے والا) عقائد کا حامل نہ ہو۔ جو یہودی یا عیسائی دہریہ عقائد کے حامل ہوں تو ایسے یہودی یا عیسائی کا ذبیحہ بھی حرام ہے۔
(۵) اللہ کا نام لے کر جانور ذبح کرنا،مثلاً: بسم اللہ کہنا۔ اگر جان بوجھ کر اللہ کا نام نہ لے یا غیراللہ کے نام پر کوئی شخص جانور ذبح کرے تو جانور حرام ہوجاتا ہے۔
(۶) قربانی اور ثواب کی نیت سے جانور ذبح کرنا۔ لہٰذا اگر گوشت خوری یا کاروبار کی نیت سے جانور ذبح کیا تو قربانی نہ ہوگی۔
(۷) کم از کم تین رگوں کا کٹ جانا۔ تین سے کم رگیں کٹنے کی صورت میں جانور حرام ہوجاتا ہے۔
اجتماعی قربانی کی شرائط:
(۱) بڑے جانور میں سات سے زائد حصّے نہ ہونا۔ اگر ایک بڑے جانور میں سات سے زیادہ حصّے رکھ لیے تو کسی کی قربانی ادا نہ ہوگی۔
(۲) کسی بھی حصّہ دار کا شرکیہ، کفریہ یا زندقہ وملحدانہ عقائد والا نہ ہونا۔ ایسے عقیدے والا کوئی بھی شخص شریکِ قربانی ہوگیا تو تمام حصّہ داروں کی قربانی غارت ہوجائے گی۔
(۳) جان بوجھ کر کسی ایسے شخص کو حصہ دار نہ بنانا جس کی کل یا اکثر آمدنی حرام کی ہو۔ اگر کوئی ایک شخص بھی حرام آمدنی سے شریکِ قربانی ہوگیا تو کسی کی قربانی نہ ہوگی۔
(۴) حصّہ داری کی صورت میں اندازے سے گوشت تقسیم کرنے سے قربانی تو ہوجائے گی لیکن سودکا گناہ ہو گا۔ اس لیے گوشت تمام حصّہ داروں میں بالکل صحیح ناپ کر برابر تقسیم کیا جائے۔ اگر تولنے کی مشقت سے بچنا ہو تو کسی کے حصّہ میں پائے کسی کے حصّے میں کلیجی کسی کے حصّے میں گردے اور کسی میں زبان رکھ دی جائے، اس صورت میں اندازے سے تقسیم سود نہیں ہوگا۔
جن جانوروں کی قربانی درست نہیں:
(۱) حادثاتی طورپر ایک سینگ یا دونوں سینگ جڑ سے اس طرح ٹوٹ گئے ہوں کہ اس کا اثر دماغ تک پہنچ گیا ہو۔ اگر پیدائشی سینگ نہ ہوں تو قربانی درست ہے۔
(۲) پیدائشی طور پر دونوں یا ایک کان بالکل نہ ہوں۔
(۳) دانت نہ ہوں اور چارہ بھی نہ کھاسکتا ہو۔
(۴) گائے میں دو تھن اور بکری میں ایک تھن سوکھا ہوا یا کٹا ہوا ہو، اسی طرح گائے کے دو تھنوں کی گھنڈیاں اور بکری کے ایک تھن کی گھنڈی کٹ گئی ہو۔
(۵) ایسا لنگڑا جانور جو چلتے وقت کسی ایک پاؤں سے بالکل سہارا بھی نہ لے سکتا ہو۔
(۶) اتنا کمزور جانور کہ اس کی ہڈیوں میں گودا نہ ہو۔
(۷) مکمل اندھا یا کانا جانور یا جس کی ایک آنکھ کی بینائی بالکل نہ ہو۔
(۸) زبان نصف سے زیادہ کٹی ہوئی ہو۔ (۹) کان نصف سے زیادہ کٹا ہوا ہو۔
(۱۰) دم نصف سے زیادہ کٹی ہوئی ہو۔ (۱۱) ناک کٹ چکی ہو۔
(۱۲) پیدائشی طور پر دُم نہ ہو ( ۱۳) خنثیٰ جانور (شامی، ہندیہ)
نوٹ : جانور کا خصّی ہونا عیب نہیں بلکہ خصّی جانور کی قربانی افضل ہے۔

مشکوٰۃ:۱/۱۲۷،ابوداؤد:)۲/۳۰)

عمر کی پہچان اورعلامتعمرجانور
عموماً سامنے کے دو پکے دانتوں کو اس بات کی علامت سمجھا جاتاہے کہ جانور پوری عمر کا ہے۔ لیکن شریعت میں دو دانت ہونا شرط نہیں بلکہ جا نور کی مذکورہ عمرپوری ہونا شرط ہے۔ لہٰذااگردو دانت نہیں نکلے لیکن جانورکی مذکورہ عمر پوری ہے یاجانور بیچنے والا جانور کی عمر پوری بتا تا ہے اور ظاہری حالات سے بھی یہی لگتا ہے کہ وہ سچ کہہ رہا ہے تو اس کی بات پر اعتماد کرنا جائز ہے۔ کم از کم 5سال کا ہونا ضروری ہے۔ اونٹ
اونٹنی
م از کم 2سال کا ہونا ضروری ہے۔ گائے، بیل،
بھینس،بھینسا
کم از کم 1 سال کا ہونا ضروری ہے۔ بکرا
بکری
ان کی عمر ایک سال ہونا چاہیے، البتہ یہ اگر چھ ماہ کے ہوں مگر ایسے صحت مند اور موٹے ہوں کہ ایک سال کے لگتے ہوں تو پھر ان کی قربانی بھی درست ہے، لیکن چھ ماہ سے کم ہونے کی صورت میں بالکل بھی درست نہیں۔بھیڑ
دنبہ
مینڈھا

سات ممنوع چیزیں:
حلال جانور میں مندرجہ ذیل سات چیزیں منع ہیں:
(۱) بہتا ہوا خون (۲) نر کی شرمگاہ (۳) مادہ کی شرمگاہ
(۴) کپورے (۵) مثانہ (۶) پِتہ (۷) غدود
حرام مغز کھانا خلافِ اولیٰ ہے۔ (شامی ، بدائع ، امداد المفتین، کفایۃ المفتی، جواہر الفتاویٰ)
قربانی کی کھال
قربانی کی کھال صاحبِ قربانی خود بھی استعمال کرسکتا ہے صدقہ بھی کرسکتا ہے،کسی کو ہدیہ بھی کرسکتا ہے۔ البتہ تنخواہ اور اُجرت کے مصرف میں نہیں دے سکتا۔دینی مدارس کے طلبہ کے لیے ہدیۃً کھال دینا زیادہ اچھا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں