سیرت فاروق رضی اللہ عنہ مختصر مختصر

٭ ولادت : سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ ہجرت نبوی سے ( 40 ) سال قبل خطاب بن عبدالعزی کے مکان میں پیدا ہوئے ۔ ولادت کی خوشی میں غیر معمولی طور پر منائی گئی ۔

٭ نام ونسب : آپ کا نام نامی ا سم گرامی عمر ، والد کا نام خطاب ،کنیت ابوحفص ،ا ور لقب فاروق ہے ، فاروق کا لقب حضور انور ﷺ کا عطا کردہ ہے، سلسلہ نسب یہ ہے : عمر بن خطاب بن نفیل بن عبدالعزی بن رباح بن عبداللہ بن قرط بن زراع بن عدی بن کعب بن لوی بن فہر بن مالک ، آپ کا سلسلہ نسب آٹھویں پشت پر حضور اقدس ﷺ سے جاملتا ہے ۔ سفارت اور منافرہ آپ کا جدی پشتی منصب ہے ۔ منافرہ کا مطلب یہ ہے کہ عرب کے باہمی منازعات اور معرکوں میں آپ کا خاندان ثالثی کا کردار ادا کرتا تھا ۔ آپ کی والدہ ختمہ، ہاشم بن مغیرہ کی صاحبزادی تھی اور مغیرہ کی حیثیت قریش میں فوج کے سپہ سالار اور امیر عام کی تھی ۔

٭ سن رشد : سن رشد وتمیز کو پہنچے توقومی شعار ” اونٹوں کو چرانے ” کی ذمہ داری سپرد کی گئی ۔ا ونٹوں کو چراتے ہوئے جب تھک ہار کر کہیں دم لینے بیٹھتے تووالد صاحب کی سرزنش برداشت کرنی پڑتی ۔

٭ شباب : شباب میں قدم رکھا تو ” عکاظ ” کی تعلیم گاہ سے نسب دانی ، سپہ گری ، پہلوانی ،خطابت ، شعر وشاعری اور تحریر وکتابت کے فنون سیکھ لیے اور ان میں مہارت حاصل کی ۔ نسب کا فن والد خطاب سے سیکھا چنانچہ نسب کے بیان کے وقت خطاب ہی کا حوالہ دیتے ۔شہسواری میں اتنا ملکہ تھا کہ بغیر لگام پکڑے اچھل کر گھوڑے پر سوار ہوجاتے۔ پہلوانی ایسی کہ عکاظ کے دنگل میں کشتیاں لڑتے ۔ قوت تقریر بلا کی حاصل کی ۔ اورآپ عرب کی ان گنی چنی ( 17 ) شخصیتوں میں سے تھے جو خورشید اسلام کے طلوع ہونے سے پہلے ہی تحریر کتابت کے فن پر دسترس رکھتے تھے ۔

ان فنون کی تحصیل سے فراغت کے بعد تجارت کوذریعہ معاش بنایا اور عراق وشام کےا سفار کیے ۔ یہیں سے آپ کی صلاحیتوں میں نکھار آیا ۔ملوک عرب وعجم سے ملاقاتیں ہوئیں ۔ آپ کی خودداری ، بلند حوصلگی ،تجربہ کاری ، معاملہ فہمی کا راز یہی اسفار تھے ۔ غالباًعبرانی زبان پر دسترس بھی اسی زمانے میں حاصل ہوگئی تھی ۔

٭ ظہور اسلام کے بعد :ظہور اسلام کے بعد جس کسی کے متعلق سنتے کہ اس نے دین محمدی کو قبول کرلیا ہے اس پر ٹوٹ پڑتے ۔ اپنی باندی بسینہ کو خوب مارا پیٹا۔ا سلام میں آپ جیسے قوی اور جری تھے کفر میں بھی کم نہ تھے۔ لیکن ادھر رحمۃ العالمین ﷺ آپ کےا سلام کی دعاؤں میں مصروف ہیں ۔

٭ شرف اسلام : بارگاہ لم یزل نے اپنے مقدس نبی کی دعا کو شرف قبولیت بخشا۔ عمر پایہ رکاب در اسلام کھٹکھٹاتے ہیں او ر خادم اسلام بن جاتے ہیں ۔ صحابہ ارض مکہ میں اور فرشتے آسمانوں میں کوشی س سے جھوم اٹھتے ہیں ۔ عزت اسلام کا آغاز ہوا چاہتا ہے ۔ دعوت اسلام عالنیہ ہوتی ہے ۔ پاکیزہ جیبنوں کو ترستا کعبہ یہ حیرت انگیز منظر دیکھتا ہے کہ میرا طواف علانیہ ہورہا ہے ۔ 

آپ کے قبول اسلام کا زمانہ عام مورخین اورارباب سیر نے 7 نبوی کو بتایا ہے بعض نے 6 نبوی اور بعض نے 5 نبوی بتا یا ہے۔ اس وقت آپ کی عمر27سال تھی ۔

قبول اسلام کے واقعے میں تین مختلف روایات ہیں :

1) عمر رضی اللہ عنہ شمشیر بکف ہوکر ” محمد ﷺ ” کے قتل کے ارادے سے نکلے ۔ راستے میں نعیم نے بات چیت کے بعد اپنے گھر کی خبر لینے کو کہا ۔ عمر رضی اللہ عنہ پلٹے اور گھر جاکر بہن اور بہنوئی کو زدوکوب کیا ۔ ان کی ” محمدﷺ نزم’ پر استقامت ، خلوص، بہتے خون اور در حقیقت دعائے محمد ﷺ “کے اثرات سے مزاج بدلا اورقرآن سننے کی تمنا کی اورقرآن سن کر مرعوب ہوئے اورا سلام نے دل میں جگہ بنا ڈالی ۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے قبول اسلام کا یہ زبان زدعام اور مشہور واقعہ ہے لیکن فن جرح و تعدیل کے اعتبار سے پایہ اعتبار سے ساقط ہے ۔

2)ایک شب حضور انور ﷺ کو چھیڑنے کی غرض سے نکلے،حضورﷺ حرم میں نماز کے اندر “سورہ حاقہ “تلاوت فرمارہے تھے ۔ قرآن کے نظم واسلوب نے ایسا اثر کیا کہ صیاد خود شکار کے دامن میں جا پڑا۔ مسند احمد کی یہ روایت سے زیادہ محفوظ ہے ۔

3) ابو جہل نے “قتل محمد ﷺ ” پر سو (100) اونٹ کا انعام کا اعلان کیا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے بالمشافہ ابو جہل سےا س انعام کی تصدیق کی پھر تلوار لے کر نکلے ، راستہ میں ” ایک بچھڑے کے پیٹ سے جو ذبح ہونے والا تھا آواز آئی ” اے آل زربح ! ایک کامیاب امر ہے ۔ ایک مرد ہے جو فصیح زبان میں یہ صدا دے ر ہا ہے کہ ” شھادۃ ان الا الہ الااللہ محمد رسول اللہ ” کی دعوت قبول کرلو۔ یہ آوازسنتے ہی عمر رضی اللہ عنہ کے دل میں یہ خیال پیدا ہو اکہ اس آواز کا مخاطب میں ہی ہوں ۔ یہ واقعہ بخاری کے علاوہ ابو نعیم نے بھی نقل کیا ہے ۔لیکن اس واقعہ میں یہ صراحت نہیں کہ اس کے بعد عمر رضی اللہ عنہ نےا سلام قبول کرلیا۔

ہجرت : اسلام کے بعد چھ یا سات سال مکہ کی پر مشقت فضا میں ایام زیست گذارت رہے ۔ پھر جب ہجرت کی اجازت ملی تو (20) صحابہ کے ساتھ سر عام پہلے طواف کیا پھر مبارزہ کیا اور جب کوئی سامنے نہ آیا توا طمینان سے مدینہ ہجرت کرگئے ۔ وہاں قبا میں جس کا دوسرا نام ” عوالی” بھی ہے ، رفاعہ بن عبدالمنذر کے مہمان بنے ۔ اور حضور پرنور ﷺ کی آمد مدینہ کے بعد ” رشتہ مواخاۃ ” میں ” عتبہ بن مالک سے منسلک ہوئے ۔ ارکان اسلام کی تجدید وتعین کے بعد نماز کے لیے کرنے کے طریقے کے بارے میں مشاورت ہوئی توآپ ﷺ نے ہی موجودہ طریقہ یعنی اذان کا مشورہ دیا تھا۔

٭ غزوات : بدر میں اپنے ماموں عاص بن ہشام کو واصل جہنم کیا۔ معرکہ بدر میں سب سے پہلے شہید ہونے والے صحابی آپ کے غلام”مجمع ” تھے ۔اساری بدر کے متعلق آپ کی رائے کی قرآن نے تائید کی کہ فدیہ کی بجائے قتل کی رائے بہتر تھی ۔

احد میں جب بھگدڑ مچی تو آپ کے پایہ ثبات میں لغزش نہ آئی اور چندمہاجرین وانصار کے ساتھ مل کر خالد بن ولید پر حملہ کر کے راستہ صاف کیا۔ علامہ بلاذری نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طرف احد میں بھاگنے کی جو نسبت کی ہے وہ روایۃً ودرایۃً غلط اور ناقابل تسلیم ہے ۔

معرکہ احد کے اختتامی مراحل میں ابو سفیان نے جب حضورﷺ کی خیریت دریافت ہونے پر یہ کہا کہ ” محمد ﷺاور ابوبکر رضی اللہ عنہ مارے گئے ” تو عمر رضی اللہ عنہ سے رہا نہ گیا اور فرمایا ” دشمن خدا ! ہم سب زندہ ہیں “۔

پھر ابو سفیان نے ” اعلیٰ ھبل ” کانعرہ بلند کیا توعمر رضی اللہ عنہ نے حضورﷺ کےا شارے سے ” اللہ اعلیٰ اجل ” کا نعرہ بلند کیا۔

غزوہ احد کے بعد ہی اپنی صاحبزادی ” حفصہ ” کا عقد حضور ﷺ سے کیا۔ صلح حدیبیہ کے موقع پر ہتھیار کی طرف حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ہی توجہ دلائی تھی اور جب صلح نامہ لکھا گیا توعمر رضی اللہ عنہ کی غیور طبیعت میں اضطراب پایا جاتا تھا اس موقع پر کچھ ایسے الفاظ بھی نکل گئے جس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو بعد میں سخت ندامت ہوئی اور کفارے میں کچھ خیرات کی ۔ 

قریش نے جب صلح حدیبیہ کی خلاف ورزی کی اور ابو سفیان عذر خواہی کے لیے آیا اور حضور ﷺ اور ابو بکر رضی اللہ عنہ کے بعد جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا توا یسا جھڑکا کہ وہ ناامید ہوکر واپس چلاگیا ۔جس کے بعد “فتح مکہ “کا واقعہ پیش آیا ،فتح مکہ کے موقع پر حضور ﷺ نےعورتوں کی بیعت کے لیے خود آگے بڑھنے کے بجائے حضر ت عمر رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ عورتوں سے بیعت لیں ۔چنانچہ تمام عورتوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کےہاتھ بیعت کی ۔

تبوک کے موقع پر اپنے گھرکا آدھا سازوسامان حضور ﷺکی خدمت میں نثار کیا غرض تمام ہی غزوات میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بھرپور شرکت کی اور اللہ اور اس کے رسول کو راضی کیا ۔

٭ وفات نبوی کے بعد : وصال نبوت کے بعد مسجد نبوی میں تلوار سونتے کھڑے ہوگئے کہ جوشخص کہے گا کہ حضورﷺ نے وفات پائی ہے اس کا سر قلم کردوں گا ۔ جس میں شاید یہ مصلحت ہو کہ منافقین کو فتنہ انگیزی کا موقع نہ ملے ۔ سقیف بنوساعدہ میں خلافت کی گھتی کو بڑے سلیقے سے سلجھا یا اور سب سے پہلے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت خلافت کی ۔ جمع قرآن کا عظیم کام آپ رضی اللہ عنہ کے اصرارسے بخیر وخوبی پایہ تکمیل کو پہنچا ۔

٭خلافت : صدیق اکبررضی اللہ عنہ نے مرض الوفات میں صحابہ کے مشورے سے آپ رضی اللہ عنہ وک خلافت کا خلعت گراں بار پہنایا ۔ اورآئندہ کے لیے نہایت مفید اور موثر نصیحتیں کیں ۔

٭ فتوحات : امیرا لمومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دس سال کے مختصر عرصہ میں روم وایران یعنی وقت کی دو عظیم الشان طاقتوں کو ملیا میٹ کردیا ۔ پہلےا یران اور پھرروم کی باری آئی ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے مفتوحہ ممالک کا رقبہ (2251030) میل مربع ، یعنی مکہ سے شمال کی جانب ( 1036) مشرق کی جانب( 1087 )جنوب کی جانب (483) میل تھا ۔ اس میں شام، مصر ،عراق،جزیرہ،فلسطین،بیت المقدس،خوزستان،عراق،عجم،آرمینہ،فارس،خراسان ، آذر بائیجان ،کرمان ،اور مکران جس میں بلوچستان کا حصہ آجاتا ہے ،شامل ہے ۔آپ رضی اللہ عنہ نے جس تیزی اور نظم وضبط سے یہ فتوحات کیں ، وثوق سے کہاجاسکتا ہے کہ آپ دنیا کے سب سے بڑے فاتح اور کشور کشا تھے۔ اس کیوضاحت چند نکات سے ہوتی ہے :

1) افواج اسلام بے سروسامانی ۔ اور قلت تعداد کے عالم میں تھی جب کہ مد مقابل فوج ہرقسم کے اسلحہ سے لیس ہوتی اور ان کی نفری بھی بے حد ہوتی ۔

2) ایک طرف بے سروسامانی اورقلت عدد کی شکار عرب کی فوجیں تھیں جب کہ دوسری طرف دنیا کی دو سپر طاقتیں ۔

3) اسکندر، دادا، چنگیز اور تیمور وغیرہ دنیا کے بڑےنامور فاتحین میں شمار کیے جاتے ہیں لیکن یہ سب ظالم اورسفاک تھے۔ عوامی ہمدردی حاصل نہ کرسکے جب کہ اسلامی افواج نے کہیں ظلم وبربریت کا مظاہرہ نہیں کیا جس کی بنا پرعوام کی طرف سے کہیں مزاحمت نہ ہوئی ۔

4) یہ نامور فاتحین از خود ہر معرکہ میں شریک ہو کر فوج کو لڑواتے یوں فوج کے دل قوی رہتے جب کہ سیدناعمررضی اللہ عنہ کسی معرکہ میں شریک نہ ہوئے دور سے ہدایات دیتے رہے پھر بھی فتوحات ہوتی رہیں ۔

5) ان نامور فاتحین نے اپنے مفتوحہ علاقوں میں کوئی نظم حکومت قائم نہ کیا جب کہ فاروقیدور کی ہرفتح کے بعدمفتوحہ علاقے میں ہر قسم کے انتظامات ہوئےا ور یہ تمام علاقے سوائے ایک قطعہ ارض کے آج تکا سلام کے قبضہ میں ہیں ۔

٭وفات: ابولولوفیروز نامی مجوسی نےاپنے آقا مغیرہ بن شعبہ کی یہ شکایت کی کہ محصول زیادہ مانگتے ہیں ۔ یہ شکایات بالکل بے جا تھی اس لیے امیرالمومنین نے توجہ نہ دی جس پر وہ غضبناک ہوا اوریوں بھی ‘قتل عمر ” کی سازش کا یہ ایک اہم رکن تھا۔ اگلے روز نماز فجر میں زہر آلود خنجر سے چھ متواتر وار کر کے فاروق حق وباطل کو جان لیو ا حد تک زخمی کردیا ۔ طبیب آپ کی حیات سے ناامید ہوگیا ۔ فاروق اعظم نے چھ اشخاص کو منصب خلافت کے لیے نامزد کیا ۔ عائشہ صدیقہ ( رضی اللہ عنہا ) س سے پہلوئے حبیب میں دفن ہونے کی اجازت چاہی جو مل گئی ۔ صاحبزادے عبداللہ کو قرض کے بارے وصیت کی اور دیگر اہم وصایا کیے اور اتنے گہرے زخموں کے باوجود تین دن تک باحیات رہ کر یکم محرم الحرام 24ھ بروز ہفتہ داعی اجل کو لبیک کہا۔

علامہ طبری ، ابن خلدون وغیرہ نے 27ذی الحجہ 23 ھ بروز بدھ کو یوم وصال بتایاہے ۔ اور اپنے محبوب کے پہلو میں دفن ہوئے۔ رب کریم ہمیں ان کے نقش پا کی اتباع نصیب فرمائے ( آمین )

تحریر: مفتی انس عبدالرحیم

اپنا تبصرہ بھیجیں