شب قدر کی اہمیت و فضیلت قرآن و حدیث کی روشنی میں

شب قدر کی فضیلت قرآن کی روشنی میں

إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ وَمَا أَدْرَاكَ مَا لَيْلَةُ الْقَدْرِ لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ تَنَزَّلُ الْمَلاَئِكَةُ وَالرُّوحُ فِيهَا بِإِذْنِ رَبِّهِمْ مِنْ كُلِّ أَمْرٍ سَلاَمٌ هِيَ حَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْر ﴿سورة القدر﴾

ترجمہ: ہم نے اس قرآن کو شب قدر میں نازل کیا، تمہیں کیا معلوم کہ شب قدر کیا ہے؟ شب قدر ایک ہزار راتوں سے بہتر ہے، اس دن فرشتے اور روح امین﴿جبرئیل علیہ السلام﴾اپنے رب کی اجازت سے ہر حکیمانہ حکم لے کر نازل ہوتے ہیں، یہ سلامتی والی ﴿رات﴾ فجر کے طلوع ہونے تک رہتی ہے۔

إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةٍ مُبَارَكَةٍ إِنَّا كُنَّا مُنْذِرِينَ۔ فِيهَا يُفْرَقُ كُلُّ أَمْرٍ حَكِيم﴿سورہ الدخان: ۳،۴﴾

بلاشبہ ہم نے اس (کتاب حکیم) کو ایک بڑی ہی بابرکت رات ﴿شب قدر﴾ میں ہی اتارا ہے کہ ہمیں بہرحال خبردار کرنا ہے،جس میں فیصلہ کیا جاتا ہے ہر حکمت والے کام کا.

شب قدر کی عبادت سے پچھلے گناہ معاف ہوجاتے ہیں:

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ” َمَنْ قَامَ لَيْلَةَ الْقَدْرِ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ ﴿صحیح بخاری، كتاب فَضْلِ لَيْلَةِ الْقَدْرِ،باب فَضْلِ لَيْلَةِ الْقَدْرِ، صحیح مسلم کتاب صلاة المسافرین و قصرہا ، باب الترغيب في قيام رمضان وهو التراويح ﴾

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص شب قدر میں ایمان کی حالت میں ثواب کی نیت سے قیام کرے گا تو اس کے پچھلے گناہ معاف ہوجائیں گے۔

شب قدر کی تعیین:

عَنْ أَبِي سَلَمَةَ قَالَ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم إِنِّي أُرِيتُ لَيْلَةَ الْقَدْرِ ثُمَّ أُنْسِيتُهَا أَوْ نُسِّيتُهَا فَالْتَمِسُوهَا فِي الْعَشْرِ الأَوَاخِرِ فِي الْوَتْر )صحیح بخاری، كتاب صلاة التراويح،باب إلتماس ليلة القدر في السبع الاواخر(

ترجمہ: ابو سلمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے وہ رات دکھائی گئی تھی مگربھر بھلا دیا گیا، لہذا اب تم اسے رمضان کی آخری طاق راتوں میں تلاش کرو۔

شب قدر کو آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرنے کا حکم

عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قال: “تَحَرَّوْا لَيْلَةَ الْقَدْرِ فِي الْوِتْرِ مِنْ الْعَشْرِ الأَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ” )صحیح بخاری، كتاب صلاة التراويح، 4 – باب تحري ليلة القدر في الوتر من العشر الأواخر, مسلم في الصيام باب استحباب صوم ستة أيام من شوال (

ترجمہ: عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ شب قدر کو رمضان کی آخری دس طاق راتوں میں تلاش کرو۔

عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُجَاوِرُ فِي الْعَشْرِ الأَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ وَيَقُولُ تَحَرَّوْا لَيْلَةَ الْقَدْرِ فِي الْعَشْرِ الأَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ )صحیح بخاری، كتاب صلاة التراويح، باب تحري ليلة القدر في الوتر من العشر الأواخر(

عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کرتے تھے، اور کہتے تھے کہ شب قدر کو رمضان کی آخری دس راتوں میں تلاش کرو۔

شب قدر کو آخری سات راتوں میں تلاش کرنے کا حکم

عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قال، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ” مَنْ كَانَ مُتَحَرِّيهَا فَلْيَتَحَرَّهَا فِي السَّبْعِ الأَوَاخِر“ )صحیح بخاری، كتاب صلاة التراويح،باب إلتماس ليلة القدر في السبع الاواخر(

ترجمہ: ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس کو ﴿شب قدر ﴾ کی تلاش کرنی ہو آخری سات راتوں میں تلاش کرے۔

شب قدر کے ۲۷ ویں رات میں تلاش کرنے کا بیان:

عن زر قال : سمعت أبي بن كعب يقول والله إني لأعلم أي ليلة هي هي الليلة التي أمرنا بها رسول الله صلى الله عليه و سلم بقيامها هي ليلة صبيحة سبع وعشرين وأمارتها أن تطلع الشمس في صبيحة يومها بيضاء لا شعاع لها ﴿صحیح مسلم کتاب صلاة المسافرین و قصرہا ، باب الترغيب في قيام رمضان وهو التراويح ﴾

زر بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے ابی بن کعب سے سنا وہ کہ رہے رہے تھے کہ اللہ کی قسم میں جانتا ہوں کہ وہ کون سی رات ہےجس کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قیام کرنےکا حکم دیا ہے، یہ ستائیسویں رات ہے۔ اس کی نشانی یہ ہے اس دن صبح کو سورج سفید ہوتا ہے اور اس میں شعائیں نہیں ہوتی ہیں۔

شب قدر کو ۲۹ ویں اور ۲۳ ویں رات میں تلاش کرنے کا بیان:

عنابن عباس رضي الله عنهما : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم ( هي في العشر هي في تسع يمضين أو في سبع يبقين ) . يعني ليلة القدر ﴿بخاری،كتاب صلاة التراويح باب تحري ليلة القدر في الوتر من العشر الأواخر﴾

ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ شب قدر آخری عشرے میں جب نو رات گذریں تب یعنی ﴿۲۹﴾انتیسویں رات میں یا جب سات راتیں باقی ہوں یعنی ﴿۲۳﴾ تیئسویں رات میں ہے۔

شب قدر کو ۲۱ ویں ۲۳ ویں اور ۲۵ ویں رات میں تلاش کرنے کا بیان

عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ الْتَمِسُوهَا فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ لَيْلَةَ الْقَدْرِ فِي تَاسِعَةٍ تَبْقَى فِي سَابِعَةٍ تَبْقَى فِي خَامِسَةٍ تَبْقَى ﴿ بخاری كِتَاب الْجُمُعَةِ، بَاب الطِّيبِ لِلْجُمُعَةِ﴾

ابن عباس سے رایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ شب قدر کو رمضان کی آخری دس راتوں میں تلاش کرو، جب سات دن باقی ہوں، سات دن باقی ہوں اور جب پانچ دن باقی ہوں۔یعنی ۲۱ ویں ۲۳ ویں اور ۲۵ ویں رات۔

شب قدر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھلادی گئی:

عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ قَالَ خَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِيُخْبِرَنَا بِلَيْلَةِ الْقَدْرِ فَتَلَاحَى رَجُلَانِ مِنْ الْمُسْلِمِينَ فَقَالَ خَرَجْتُ لِأُخْبِرَكُمْ بِلَيْلَةِ الْقَدْرِ فَتَلَاحَى فُلَانٌ وَفُلَانٌ فَرُفِعَتْ وَعَسَى أَنْ يَكُونَ خَيْرًا لَكُمْ فَالْتَمِسُوهَا فِي التَّاسِعَةِ وَالسَّابِعَةِ وَالْخَامِسَةِ ﴿ بخاری كِتَاب الْجُمُعَةِ، بَاب رَفْعِ مَعْرِفَةِ لَيْلَةِ الْقَدْرِ لِتَلَاحِي النَّاسِ﴾

عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں شب قدر کے بارے میں بتانے کے لئے نکلے اسی دوران دو مسلمان دو مسلمان ﴿کسی معاملے میں ﴾ آپس میں جھگڑ پڑے، آپ نے ارشاد فرمایا، میں نکلا تھا کہ تم لوگوں کو شب قدر کے بارے میں بتاوں مگر فلاں فلاں جھگڑنے لگے اور اس کا علم اٹھا لیا گیا ﴿بھلادیا گیا﴾ مجھے امید ہے کہ یہ تمہارے حق میں بہتر ہی ہے لہٰذا تم لوگ اس رات کو۲۹ویں، ۲۷ ویں اور ۲۵ ویں رات میں تلاش کرو۔

آخری عشرے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل

عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا دَخَلَ الْعَشْرُ شَدَّ مِئْزَرَهُ وَأَحْيَا لَيْلَهُ وَأَيْقَظَ أَهْلَهُ” )صحیح بخاری، كتاب صلاة التراويح، باب العمل في العشر الاواخر من رمضان(

عائشہ رضی اللہ عنہابیان کرتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب آخری دس دنوں میں داخل ہوتے تو ﴿عبادت کے لئے﴾ کمر کس لیتے، خود بھی شب بیداری کرتے اور گھر والوں کو بھی جگاتے تھے۔

شب قدر کی دعا

عن عائشة أنها قالت يا رسول الله أرأيت إن وافقت ليلة القدر ما أدعو ؟ : قال ( تقولين اللهم إنك عفو تحب العفو فاعف عني ﴿سنن ابن ماجہ كتاب الدعاء، باب الدعاء بالعفو والعافية

عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علی وسلم سے دریافت کیا کہ اگر مجھے شب قدر مل جائے تو میں کون سی دعا پڑھوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم پڑھو: اللہم انک۔۔۔۔۔ ترجمہ : اے اللہ تو معاف کرنے والا ہے معافی کو پسند کرتا ہے لہذا تو ہمیں معاف کردے۔

خلاصہ کلام:

شب قدر کون سی رات ہے اس کے بارے میں کوئی حتمی بات نہیں کہی جاسکتی، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ۲۱، ۲۳، ۲۵، ۲۷ اور ۲۹ویں رمضان کی سبھی راتوں کے بارے میں حدیثیں ملتی ہیں،یہی وجہ ہے کہمحدثین کرام کا کہنا ہے کہ یہ رات ہر سال تبدیل ہوتی رہتی ہے۔ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس رات کے بارے میں بھلادیا دیا گیا، ایسے میں کسی ایک رات کو اپنی طرف سے شب قدر مان کر بقیہ طاق راتوں کو عبادت سے غافل رہنا بہت بڑی محرومی کا سبب ہے۔کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم جس رات کو شب قدر مان رہے ہوں وہ اس کے علاوہ کسی اور رات میں ہو۔ جبکہ آخری عشرے کی سبھی راتوں میں تلاش کرنے میں یہ خطرہ نہیں ، اس رات کو پوشیدہ رکھنے کا مقصد بھی یہی ہے کہ بندہ زیادہ سے زیادہ اللہ کی عبادت کرسکے۔

اللہ تعالی ٰ ہمیں شب قدر میں عبادت کا موقع نصیب فرمائے ۔ آمین

2 تبصرے “شب قدر کی اہمیت و فضیلت قرآن و حدیث کی روشنی میں

اپنا تبصرہ بھیجیں