دارالعلوم کراچی فتویٰ نمبر:87
کیافرماتے ہیں علماء ومفتیان دین اس مسئلہ کے بارے میں کہ حصص ( Shares ) کا کاروبار شرعا جائز ہے یا نہیں اور اگر جائز ہے تو کن شرائط کو ملحوظ خاطر رکھنا ضروری ہے ؟ اور شیئرز خریدنے کے بعد انہیں آگے کب فروخت کرنا شرعا جائز ہے اور کب ناجائز ہے ۔دارالافتاء دارالعلوم کراچی سے شئیرز کے کاروبار سے متعلق فتویٰ 1426میں جاری ہوا ہے کیا مذکورہ فتویٰ اب بھی برقرار ہے ؟
برائے مہر بانی اس پر نظر ثانی فرماکر اپنی رائے سے مطلع فرمائیں ۔
الجواب حامداومصلیا ً
حصص کے کاروبار کے سلسلہ میں دارالافتاء دارلعلوم کراچی سے جو فتوی 1426ھ میں جاری ہوا جس کا سوال میں ذکر ہے جو اب تک دیاجاتا رہاہے، اس پرغور کیا گیا ۔ فی الوقت اس میں کچھ شرائط کا اضافہ اور معمولی تبدیلی کی گئی ہے اب شئیرز کا کاروبار درج ذیل شرائط کے ساتھ جائز ہے:
1۔ جس کمپنی کے شئیرز خریدنا چاہتے ہیں اس کاکاروبار حلال ہو۔ اگر کمپنی کا کاروبا غیر شرعی ہوتو اس کے شئیرز کی خرید وفروخت جائز نہیں ۔
2۔ اس کمپنی کا کاروبار واقعۃً شروع ہوچکا ہو اور اس کمپنی کی املاک وجود میں آچکی ہوں مثلا ً عمارت اور مشینری وغیرہ وجود میں آچکی ہوں اور نقد اثاثے صرف پلاننگ اور منصوبہ بندی تک محدود نہ ہوں ۔ اگر کمپنی صرف منصوبہ بندی اور نقد اثاثوں تک محدود ہو اور کاروبار شروع نہ ہوا ہو تو شئیرز کو صرف ان کی اصل قیمت ( Face Value) پر خریدنا یا بیچنا جائز ہے ا س سے کم وبیش پر خریدنا بیچنا جائز نہیں ۔
3۔ نفع ونقصان دونوں میں شرکت ہو یعنی اگر کمپنی کو نفع ہو تو شئیرز کے خریدار بھی نفع میں شریک ہوں گے اور اگر نقصان ہوتو اپنے سرمائے کے تناسب سے نقصان میں بھی شریک ہوں گے ۔
4۔ نفع فیصد کے اعتبار سے طے ہو یعنی نفع کی ماہانہ یا سالانہ کوئی خاص رقم یقینی طور پر مقررنہ ہو بلکہ فیصد کے حساب سے نفع مقرر کیاگیا ہوکہ جو نفع ملے گا اس میں سے اتنے فیصد کمپنی کا ہوگا اور اتنے فیصد شئیر ہولڈر میں تقسیم کیاجائے گا۔
5۔ شئیرز خریدنے میں یہ بھی ضروری ہے کہ کمپنی کا اصل کاروبار حلال ہونے کے ساتھ ساتھ وہ ضمنی طور پر بھی کسی ناجائز میں ملوث نہ ہو اوراس ضمنی کام سے حاصل ہونے والی آمدمی کا تناسب اس کی مجموعی آمدنی میں معتد بہ مثلا ً پانچ فیصد نہ ہو ( جیسا کہ اس کی پابندی آج کل کے اسلامی مالیاتی اداروں میں کروائی جارہی ہے )، بصورت دیگر شئیرز خریدنے والا اس ادارے سے خریدے کہ وہ کمپنی کو ناجائز اور حرام معاملات کرنے سے ہر طرح منع کریگا ، تحریری طور پر بھی اور خصوصاً کمپنی کےسالانہ اجلاس میں بھی یہ آواز اٹھائے گا کہ کمپنی ناجائز اور حرام معاملہ نہ کرے اور کم از کم ہمارا سرمایہ کسی حرام اور ناجائز کاروبار میں نہ لگائے ۔
6۔شق نمبر5 کے پیش نظر جب کمپنی سے سالانہ نفع وسول ہو تو شئیرز رکھنے والا ا س کمپنی کی بیلنس شیٹ میں دیکھے کہ کمپنی نے اس ناجائز ضمنی معاملہ سے کتنے فیصد سرمایہ ناجائز کاروبار میں لگاکر نفع حاصل کیاہے پھر آمدنی کا اتنے فیصد حصہ اپنے حاصل شدہ نفع سے صدقہ کردے۔
7۔شئیرز ہولڈر ا س بات کا بھی اہتمام کرے کہ جس کمپنی کے شئیرز خریدے ا س کے مجموعی سرمائے کے تناسب میں اس کمپنی کے سودی قرضوں کی مقدار بہت زیادہ ( مثلا تینتیس فیصد 33٪ سے زیادہ) نہ ہو۔
8۔ جو شئیرز خریدا جارہا ہو اس کے پیچھے موجود خالص نقد اثاثوں (Net liquid assets) کی مقدار اس شئیر کی بازاری قیمت (Market value )سے کم ہو۔
9۔اگر شیرز کو ان کی قیمت اسمیہ سے کم یا زیادہ پرخریدا یا بیچارہ جارہاہو تو شئیرز جس کمپنی کے ہوں اس کے پاس نقد اثاثوں (Current Assets ) کے ساتھ ساتھ ایک معتدبہ مقدار جامد اثاثے بھی موجود ہوں ( مثلا بیس فیصد یا اس سے زائد جامد اثاثے ہوں )
10۔ مروجہ غیر اسلامی بینکوں اور انشورنس کمپنیوں ،ا سی طرح شراب بنانے والی اور بنیادی طور پرسود کاکام کرنے والی کمپنیوں کے شئیرز خریدنا بھی جائز نہیں ۔
11۔ شئیرز کی خریدفروخت کرنے میں ایک شرط یہ بھی ہے کہ شئیر خریدنے کے بعد شئیر ہولڈر ز ان شئیر پرقبضہ کرے اس کے بعد ان کو فروخت کرے ۔شئیرز پر قبضہ کئے بغیر انہیں آگے فروخت کرنا شرعاً درست نہیں جس کی وضاحت درج ذیل ہے ۔
شئیرز آگے فروخت کرنے میں قبضہ کے مسائل
اسٹاک ایکسچینج میں ڈے ٹریڈنگ میں حاضر سودے کی جوصورت رائج ہے وہ یہ ہے کہ حاضرسودے میں سودا ہوتے ہی اس کا اندراج فوراً ہی KATمیں ہوجاتا ہے جو اسٹاک ایکسچینج میں ہونے والے سودوں کا کمپیوٹر ائز ریکارڈ ہوتا ہے لیکن آج کل ہرسودے کے دو کاروباری دنوں کے بعد خریدار کو طے شدہ قیمت ادا کرنی ہوتی ہے اور بیچنے والے کو بیچے ہوئے حصص کی ڈیلیوری دینی ہوتی ہے ۔ ( جبکہ پہلے اس میں تین دن لگتے تھے ) جس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ متعلقہ کمپنی کے ریکارڈ میں سی ڈی سی کے ذریعے خریدے گئے شئیرز خریدار کے نام منتقل کیے جاتے ہیں،ا سٹاک ایکسچینج کی اصطلاح میں اس کو ڈیلیوری اورقبضہ کہاجاتاہے ۔
مذکورہ صورت کا شرعی حکم یہ ہے کہ جب تک خریدے گئے شئیرز سی ڈی سی کے ذریعہ متعلقہ کمپنی کے ریکارڈ میں خریدار کے نام منتقل نہیں ہوجاتے انہیں آگے فروخت کرنا شرعاً جائزنہیں کیونکہ شرعاً کسی بھی چیز کو آگے بیچنے کے لیے اس پر قبضہ شرط ہے ۔
اسٹاک ایکسچینج کے مروجہ طریق کار کے مطابق اگر چہ شئیرز خریدتے وقت KAT میں ان کا اندراج ہوجاتاہے اور شئیرز کا نفع ونقصان بالآخر خریدار کو ہی پہنچتا ہے لیکن چونکہ شئیرز کی خریدوفروخت درحقیقت کمپنی کے حصہ مشاع کی خرید وفروخت ہے اور حصہ مشاع کی بیع میں محض نفع ونقصان کے خریدار کی طرف منتقل ہونے کو شرعی قبضہ قرار نہیں دیاجاسکتا اور حصہ مشاع پر حسی قبضہ بھی ممکن نہیں لہذا اس صورت میں قبضہ کے تحقق کے لیے تخلیہ کا پایا جانا ضروری ہے اوراسٹاک ایکسچینج کے موجودہ قواعد وضوابط کے مطالعے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ سی ڈی سی کے ذریعے کمپنی کے ریکارڈ میں شئیرز خریدار کے نام منتقل ہونے سے پہلے تخلیہ نہیں پایا جاتا لہذا مذکورہ صورت میں سی ڈی سی کے ذریعہ متعلقہ کمپنی کے ریکارڈ میں بیچے گئے شئیرز خریدار کے نام منتقل ہونے سے پہلے انہیں آگے فروخت کرنا بیع قبل القبض ہے جو کہ شرعاً جائز نہیں ۔
خلاصہ یہ کہ حاضر سودے کی صورت میں بھی خریدے گئے شئیر ز سی ڈی سی کے ذریعہ متعلقہ کمپنی کے ریکارڈ یعنی ڈیلیوری سے پہلے آگے بیچنا جائز نہیں ۔
12۔ فارورڈ سیل Forward Trading) ) یا فیوچر سیل (Future Trading ) کی جتنی صورتیں اسٹاک ایکسچینج میں رائج ہیں وہ اپنی موجودہ شکل میں شرعا ناجائز ہیں۔
13۔ اسٹاک ایکسچینج میں رائج بدلہ کے معاملات بھی بیع قبل القبض اوردوسری شرط فاسد ( یعنی زیادہ قیمت پر واپس خریدنے کی شرط پر بیچنے ) کی بناء پر جائز نہیں ۔
14۔ اسٹاک ایکسچینج میں رائج شئیرز کی بلینک سیل ( Blank Sale ) اور شارٹ سیل ( Short Sale) بھی شرعا ممنوع اور ناجائز ہے ۔ ( ماخذہ تبویب 803/47)
واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم
دارالافتاء جامعہ دارالعلوم کراچی
عربی حوالہ جات اور مکمل فتویٰ پی ڈی ایف فائل میں حاصل کرنے کے لیے دیے گئے لنک پر کلک کریں :
https://www.facebook.com/groups/497276240641626/552265451809371/