مسلمانوں کے عروج و زوال کی داستان

فرقہ واریت
فرقہ کی تعریف(Defination)
فرقہ کی الگ سے کوئی تعریف کہیں نظر میںتو نہیں آئی لیکن قرآن کریم کے فرامین میں غور کرنے سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ محض کوئی اختلاف ، فرقہ بندی نہیں۔ بلکہ صراط مستقیم اور راہ حق سے الگ سوچ اور نظریہ اپنا لینا فرقہ بندی ہے۔
چنانچہ سورۃ الانعام آیت ۱۵۳ میں اﷲ جل شانہ ارشاد فرماتے ہیں:
وان ھذا صراطی مستقیما فاتّبِعوہ، ولا تتبعوا السبل فتفرق بکم عن سبیلہ
(اے پیغمبر ﷺ ان سے کہہ دیجیے کہ) یہ (صراط مستقیم) میرا سیدھا سیدھا راستہ ہے، لہٰذا اس کے پیچھے چلو اور دوسرے دوسرے راستوں کے پیچھے نہ پڑو، ورنہ وہ تمہیں اﷲ کے راستے سے علیحدہ کردیں گے۔
ذرا غور فرمائیں!  سبیلہ  اﷲ کے راستے کو اور صراطی رسول اﷲ ﷺ کے راستے کو صراطِ مستقیم قرار دیا گیا ہے اور اس راستے سے ہٹ کر دوسری راہوں کو تفرق اور علیحدگی کا راستہ کہا گیا ہے۔ معلوم ہوا کہ ہر راہ اور ہر نظریہ درست نہیں ہے۔ صرف وہ راستہ اور نظریہ درست اور صراط مستقیم ہے جو اﷲ تعالیٰ اور نبی کریم ﷺ کا بتایا ہوا ہے۔ اس سے جدا سوچ و نظریہ اپنا لینا صراط مستقیم سے الگ ہونا اور افتراق و انتشار کا راستہ اختیار کرنا ہے۔ سورۃ الانعام آیت ۱۵۹ اور سورۃالروم آیت ۳۲ میں لفظ فرقوا دینھم بتاتا ہے کہ طے کردہ اُصول دین سے انحراف کرکے علیحدہ نظریات اپنا لینا یہ وہ چیز ہے جو فرقہ بندی، فتنہ اور افتراق و انتشار کا ذریعہ ہے۔
دو انتہائی حدیں:
عموماً! لوگ فرقہ بندی کا مفہوم سمجھنے میں غلط فہمی اور افراط و تفریط کا شکار ہیں۔ کچھ لوگ ہر طرح کے اختلافات کو فرقہ بندی کا نام دیتے نظر آتے ہیں تو کچھ وہ لوگ بھی ہیں جو فرقہ پرستی اور فرقہ وارانہ سوچ میں حد سے زیادہ تعصب کا رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں۔ اگر ایک طرف ایسے لوگ ہیں جو ہر طرح کے اختلاف کو برداشت کرنے کا مشورہ دیتے ہیں تو دوسری طرف ایسے بھی لوگ ہیں جو اپنے موقف سے ذرہ برابر اختلاف گوارہ کرنے پر آمادہ نہیں۔ یوں مسلم معاشرہ دو انتہائی حدوں میں تقسیم نظر آتا ہے۔
راہ اعتدال:
 حالانکہ ہر اختلاف ایسا بھی نہیں جسے ٹھنڈے پیٹوں ہضم کر لیا جائے اور نہ ہی ہر اختلاف ایسا ہے جو قابل برداشت نہ ہو، بلکہ بعض اختلافات ایسے ہیں کہ انہیں برداشت کرنا ضروری ہے، انہیں برداشت نہ کرنا غلط ہے جبکہ بعض اختلاف رائے وہ ہیں جو قطعاً برداشت کرنے کے قابل نہیں، انہیں برداشت کرنا غلط ہے۔
 ہمارا المیہ یہ ہے کہ جہاں اختلاف رائے رکھنے کی خود مذہب نے گنجائش دی ہے وہاں اختلاف رائے برداشت کرتے اور جہاں اختلاف رائے کی بالکل گنجائش نہیں دی وہاں برداشت، رواداری اور حوصلہ مندی کی تلقین کرتے تھکتے نہیں۔
اختلاف کی قسمیں:
دراصل اختلاف رائے کی دو مختلف نوعتیں ہیں۔
ایک وہ اختلاف ہے جو عقیدے اور نظریے کا ہے۔ اسلام ایسے اختلاف رائے کا بالکل حق نہیں دیتا۔ اختلاف کی دوسری نوعیت فروعی اور عملی مسائل میں اختلاف رائے کی ہے۔ اسلام اس میں اختلاف کا حق دیتا ہے۔
نظریے اور عقیدے میں اختلاف رائے کا حق نہ ہونے کی کئی واضح مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔
    مثلاً:  مسیلمہ کذاب، اسود عنسی اور طلیحہ اسدی نے جب نبوت کا دعویٰ کیا تو ان کے اس اختلاف کو قطعاً برداشت نہیں کیا گیا، بلکہ ان فتنوں کی بیخ کنی کے لیے حضور اقدس ﷺ نے بذات خود لشکر روانہ فرمائے۔ کیونکہ یہ اختلاف ختم نبوت کے متفقہ اور مسلمہ عقیدے کے خلاف تھا۔
سیّدنا صدیق اکبرb کے دور خلافت میں کچھ نو مسلم قبائل نے زکوۃ کا انکار کیا تو ان کے اس اختلاف رائے کو قطعاً برداشت نہیں کیا گیا اور لشکر کشی اور تلوار کے زور پر انہیں اسلام کے اس متفقہ اور مسلمہ فریضے کی ادائیگی پر مجبور کیا گیا۔
سیدنا عمر بن الخطابb اور بعد میں صحابہ کے دور میں ’’انکار تقدیر‘‘ کے فتنے نے سر اُٹھایا تو تمام صحابہ کرام vبیک آواز اس کے خلاف صف آراء ہوگئے۔
حضرت سیدنا علی المرتضیٰ کرم اﷲ وجہہ کے دور خلافت میںجب کچھ لوگوں نے یہ عقیدہ گھڑا کہ حضرت علی کرم اﷲ وجہہ کے اندر اﷲ J نے حلول کیا ہوا ہے تو خود حضرت علی کرم اﷲ وجہہ نے ایسے لوگوں کو زندہ آگ میں جلا کر اس فتنے کی سرکوبی کی۔ کیونکہ یہ اختلاف ، عقیدے اور نظریے کا اختلاف تھا اور عقیدے کے اندر اختلاف اسلام میں قطعاً روا نہیں۔
اس کے برعکس ہم دیکھتے ہیں کہ انہیں صحابہ کرام میں دسیوں قسم کے فروعی اختلافات موجود تھے:
ہم دیکھتے ہیں کہ رفع یدین کے مسئلہ میں صحابہ کرامv کا آپس میں اختلاف رہا۔ ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ آمین زور سے پڑھنی چاہیے یا آہستہ؟ یہ مسئلہ صحابہ کرام vکے دور سے اختلافی چلا آرہا ہے۔ اختلاف مطالع کا اعتبار ہے یا نہیں؟ مردے سنتے ہیں یا نہیں سنتے؟ گدھے کا جھوٹا پاک ہے یا نجس؟ نیند سے وضو ٹوٹتا ہے یا نہیں؟ امام کے پیچھے قرأت کرنی چاہیے یا نہیں؟ یہ اور اس قسم کے ہزاروں مسائل ہیں جن میں صحابہ کرامv کا اختلاف رائے رہا ہے۔یہ اختلافات توصحابہ کرام v کے ہیں۔خود انبیائے کرام E کے درمیان اور بعض اوقات نبی او رصحابی میں بھی فروعی اختلافات کی مثالیں ہمیں ملتی ہیں۔ حضرت موسیٰe اور حضرت خضرe کا آپس میں اختلافِ رائے ہوا۔ نبی کریمﷺ کے اجتہاد اور سیّدنا فاروقِ اعظمb کے اجتہاد میں اختلاف ہوا… جیسے جنگ ِبدر کے
 قیدیوں اور رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی بن سلول کے نمازِ جنازہ پڑھانے کا اختلاف… حضرت دائودe اور حضرت سلیمان eکا قضا کے ایک معاملے میں اختلافِ رائے ہوا۔ ذرا ترمذی شریف اور طحاوی شریف اُٹھا کر دیکھیے کس قدر فروعی اختلافات آپ کو نظر آئیں گے… لیکن مجال ہے کہ ان فروعی اختلافات کے باوجود کبھی کسی صحابی نے دوسرے صحابی پر سب و شتم کیا ہو یا گمراہ کہا ہو بلکہ ہمیشہ ایک دوسرے کا احترام ہی کیا۔ مگر جب بھی کسی نے عقیدہ میں اختلاف کیا۔ مسلمات اور نظریات میں رائے زنی کی تو تمام صحابہ اس کے خلاف متحد ہوگئے۔ وجہ اس کی یہی ہے کہ صحابہ کرام vجانتے تھے کہ فروعی مسائل، اجتہادی مسائل ہیں یہ وہ مسائل ہیں جن میں کوئی واضح موقف قرآن و سنت میں موجود نہیں ہے۔ ایسے اجتہادی مسائل میں یقینی طور پر نہ کسی کی تصویب ممکن ہے نہ ہی یقینی طور پر کسی ایک کی تغلیط ممکن ہے۔ ثواب دونوں کو ملتا ہے۔ گمراہ دونوں نہیں۔ صحابہ کرامv فروعی مسائل میں حد سے زیادہ تعصب کو غلو فی الدین، تشدد اور غیر شرعی امر خیال کرتے تھے جبکہ عقائد و نظریات اور دین کے متفقہ اور مسلمہ امور میں وہ اختلاف رائے کو برداشت نہیں کرتے تھے اور جو کوئی ایسا کرتا اس کے شبہات دور کرنے کی کوشش کرتے اس کے باوجود اگر وہ اپنے نظریے سے توبہ تائب نہ ہوتا تو اختیارات کے دائرے میں رہتے ہوئے باقاعدہ اس سے برسرپیکار ہوجاتے۔
صحابہ مشعل راہ ہیں:
صحابہ کرامv کا طرز عمل ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔ صحابہ کرام vکا یہ عمل ان لوگوں کے خیال کی نفی کرتا ہے جو ہر قسم کے اختلاف کو برداشت کرنے کا درس دیتے ہیں اور یہ ان لوگوں کی بھی بالکل حمایت نہیں کرتا جو فروعی اختلافات کو ایمان و کفر کا مسئلہ بنائے بیٹھے ہیں اور اپنی تمام تر توانائیاں اسی پر صرف کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ صحابہ کرام v کا یہ طریقہ ان لوگوں کے لیے بھی تازیانہ عبرت ہے جو متفقہ و مسلمہ عقائد اور اصول دین میں شکوک و شبہات اور دجل و فریب کی راہ اپنائے ہوئے ہیں یا ایسے نئے نئے عقائد گھڑرہے ہیں جن کا قرون اولیٰ میں کوئی وجود نہیں تھا۔
راہ حق کی نشانیاں:
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ کون سے عقائد و نظریات ہیں جو اُصول دین راہ حق اور صراط مستقیم کہلائے جا سکتے ہیں؟ جن کی مخالفت جائز نہیں ہوگی۔
اس کا جواب تین احادیث سے واضح ہوجاتا ہے:
۱}   ان بنی اسرائیل تفرقت علی ثنتین و سبعین ملۃ، و تفترق امتی علی ثلث و سبعین ملۃ کلھم فی النار، الاملۃ واحدۃ، قالوا: من ھی یا رسول اﷲ؟ قال: ما انا علیہ واصحابی۔ وفی روایۃ: وھی الجماعۃ
(مشکوۃ، باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ: ص۳۰،  طبعی قدیمی کتب خانہ)
بنی اسرائیل 72 فرقوں میں تقسیم ہوگئے تھے اور میری امت 73 فرقوں میں تقسیم ہوگی سوائے ایک کے باقی سب کے سب فرقے جہنم میں جائیں گے (یعنی ہمیشہ کے لیے نہیں بلکہ سزا بھگتنے کے لیے) صحابہ کرام نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ! یہ نجات پانے والا فرقہ کون سا ہے؟ فرمایا: ’’ما انا علیہ و اصحابی‘‘ یعنی وہ لوگ جو اس طریقے پر قائم رہیں گے جس پر میں ہوں اور میرے صحابہ ہیں۔‘‘ ایک روایت میں اس طرح ہے کہ ’’وہ برحق جماعت ’’الجماعت‘‘ ہے۔
۲}  جو شخص تم میں سے میرے بعد زندہ رہا وہ بہت سے اختلافات دیکھے گا اس لیے حل یہ ہے کہ تم میرے طریقے کو اور ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کے طریقے کو لازم پکڑو اور اسے دانتوں سے مضبوط پکڑ لو۔
وایا کم و محدثات الامور، فان کل محدثۃ بدعۃ، وکل بدعۃ ضلالۃ اور دیکھو جو باتیں نئی نئی ایجاد کی جائیں گی ان سے بچنا! اس لیے کہ ہر (وہ عقیدہ یا عمل جو دین کے نام پر) نیا ایجاد کیا جائے وہ بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔‘‘    (مشکوٰۃ : ص۳۰)
۳}  ’’ میری اُمت میں سے ہمیشہ ایک جماعت حق پر رہے گی۔ نصرت ان کے شامل حال رہے گی۔ ان کو رسوا کرنے والے اور ان کی مخالفت کرنے والے ان کو نقصان نہیں پہنچا سکیں گے۔ یہ جماعت قربِ قیامت تک رہے گی۔
(مشکوۃ ، باب ثواب ھذہ الامۃ: ص ۵۸۳)
اس روایت کے بعض طرق میں اس جماعت کی دو خصوصی صفات بیان کی گئی ہیں: ایک علمی مہارت اور دوسرا جہاد۔
ان تینوں احادیث سے راہ حق پر چلنے والوں کی کچھ نشانیاں واضح ہوتی ہیں:
۱… یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو قرآن کریم کے ساتھ ساتھ سنت نبوی اور جماعت صحابہ کا دامن تھامے ہوئے ہوتے ہیں۔ نہ وہ ایسے ہوتے ہیں کہ صرف قرآن کو معیار مانتے ہوں۔ نہ ایسے ہوتے ہیں کہ صرف قرآن و سنت کو معیار حق مانتے ہوں بلکہ قرآن، سنت نبوی اور صحابہ کرام vان تینوں کو وہ معیار حق و باطل اور دلیل و حجت تسلیم کرتے ہیں۔
۲… یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو بدعت سے دوری اور بیزاری کا اظہار کرتے ہیں۔
۳… یہ وہ ہوتے ہیں جن کی عموماً باطل مخالفت کرتا ہے۔ جن کو رسوا کرنے کی کوششیں کی جاتی ہیں۔ علم دین میں مہارت اور رسوخ ان کو حاصل ہوتا ہے اور جہاد کے وہ علم بردار ہوتے ہیں۔
شارحین حدیث اور علمائے اُمت کا اتفاق ہے کہ ان احادیث کا مصداق اہل السنۃ والجماعۃ ہیں۔ اہل السنۃ والجماعت کی چار شاخیں ہیں:
محدثین، متکلمین، فقہاء اور صوفیہ کرام۔ متکلمین کے دو طبقات ہیں: اشاعرہ اور ماتریدیہ۔ فقہائے کرام کے چار طبقات ہیں: حنفیہ، مالکیہ، شافعیہ اور حنابلہ۔ اسی طرح صوفیائے کرام کے بھی چار سلسلے ہیں: چشتیہ، قادریہ، نقشبندیہ اور سہروردیہ۔
یہ سب اہل السنۃ و الجماعۃ میں شامل ہیں۔ ان کے جو عقائد و نظریات ہیں وہ ہی صراط مستقیم ہے۔ ان کے نظریات سے انحراف گمراہی اور تفرقہ بازی ہے۔
رہا سوال موجودہ دور میں اہل السنۃ و الجماعۃ کہلانے والے فرقوں کے اندر آپس کے اختلافات کا تو ان میں حق کی پیمائش اور پیمانہ وہ تین باتیں ہیں جو اوپر ذکر کی گئیں۔
جاری ہے…

اپنا تبصرہ بھیجیں