سورۃ الواقعہ کی فضیلت

سوال :

 سورۃ الواقعۃ کی فضیلت بیان فرمائیں،نیز ایک غیرمقلد نے اشکال کیا ہے کہ بچپن سے ان کا بعد نماز مغرب فراوانی رزق کے لیے پڑھنے کی عادت تھی مگر ان کے علماء نے یہ کہہ کر منع فرمادیا کہ یہ حدیث ضعیف ہے جبکہ ایک عالم نے تویہ فرمایا کہ یہ من گھڑت اورموضوع ہے ۔اس کو خاص اس لیے بعد نماز مغرب پڑھنا بدعت ہے اور کہا کہ برکت کے لیے کہیں سے بھی قرآن کریم پڑھیں خاص یہ سورت تلاوت نہ کریں۔

فتویٰ نمبر:217

الجواب باسم ملہم الصواب

  سورۃ الواقعۃ کی فضیلت احادیث سے ثابت ہے کہ  اس سے رزق میں تنگی نہیں آتی ۔تا ہم یہ فضیلت رات کے کسی بھی  حصہ میں پڑھنے سے حاصل ہوسکتی ہے۔خاص مغرب کے بعد پڑھنا ضروری نہیں ۔اگرچہ یہ احادیث ضعیف ہیں تاہم  ایک تو ان میں ضعف کم ہے ۔دوسرا یہ متعدد طرق سے منقول ہےاور ایسی ضعیف احادیث فضائل اعمال میں چند شرائط کے ساتھ  قابل عمل شمار ہوتی ہیں:

1ــ  ضعف شدید نہ ہو ، ضعف شدید راوی کے متہم بالکذب یا فحش غلط کی وجہ سے ہوتا ہے۔(اس حدیث میں ایسا کوئی راوی نہیں جو متہم بالکذب فاحش الغلط ہو۔)

2ــ  کسی معمول بہ اصل کے مطابق ہو،قرآن ،حدیث ،اجماع اور قیاس کے مخالف اس کا مضمون نہ ہو۔(یہ حدیث بھی کسی  شرعی اصل کے خلاف نہیں ہے۔)

3ــ اس حدیث پر عمل کرتے ہوئے یہ اعتقاد نہ ہو کہ یہ رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہے بلکہ احتیاطا اس پر عمل کیا جائے۔

            لہذا مذکورہ بالا شرائط کی رعایت رکھتے ہوئے اس حدیث  پر عمل کیا جاسکتاہے اوراسے آگے بھی  بیان کیا جاسکتا ہے۔

الحَدِيث الْحَادِي عشر عَن رَسُول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم َ أَنه قَالَ : “من قَرَأَ سُورَة الْوَاقِعَة فِي كل ليله لم تصبه فاقة أبداَ”.

قلت (القائل هو الزيلعي ت 762هـ ) رَوَاهُ الْبَيْهَقِيّ فِي شعب الْإِيمَان فِي الْبَاب التَّاسِع عشر من حَدِيث الْحجَّاج ابْن منهال ثَنَا السّديّ بن يَحْيَى الشَّيْبَانِيّ أَبُو الْهَيْثَم عَن شُجَاع عَن أبي فَاطِمَة أَن عُثْمَان بن عَفَّان عَاد ابْن مَسْعُود فِي مَرضه فَقَالَ مَا تَشْتَكِي قَالَ ذُنُوبِي قَالَ فَمَا تشْتَهي قَالَ وَجه رَبِّي قَالَ أَلا نَدْعُو لَك طَبِيبا قَالَ الطَّبِيب أَمْرَضَنِي قَالَ أَلا آمُر لَك بِعَطَائِك قَالَ منحتنيه قبل الْيَوْم فَلَا حَاجَة لي فِيهِ قَالَ تَدعه لأهْلك وَعِيَالك قَالَ إِنِّي عَلَّمْتهمْ شَيْئا إِذا قَالُوهُ لم يَفْتَقِرُوا سَمِعت رَسُول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم َ يَقُول (من قَرَأَ الْوَاقِعَة كل لَيْلَة لم يفْتَقر)انْتَهَى.

(تخريج الكشاف : 3/411 ، رقم الحديث : 1295 ، ط : دار ابن خزيمة)

وقال أيضا : فقد تبين ضعف هَذَا الحَدِيث من وُجُوه.

أَحدهمَا : الِانْقِطَاع كَمَا ذكره الدَّارَقُطْنِيّ وَابْن أبي حَاتِم فِي علله نقلا عَن أَبِيه.وَالثَّانِي : نَكَارَة مَتنه كَمَا قَالَ أَحْمد. وَالثَّالِث ضعف رُوَاته كَمَا ذكره ابْن الْجَوْزِيّ.وَالرَّابِع : الإضراب فَمنهمْ من يَقُول أَبُو طيبَة بِالطَّاءِ الْمُهْملَة بعْدهَا يَاء آخر الْحُرُوف كَمَا ذكره الدَّارَقُطْنِيّ وَمِنْهُم من يَقُول بِظَاء مُعْجَمه بعْدهَا بَاء موحده وَمِنْهُم من يَقُول أَبُو فَاطِمَة كَمَا ذكرهمَا الْبَيْهَقِيّ وَمِنْهُم من يَقُول أَبُو شُجَاع وَمِنْهُم من يَقُول عَن أبي شُجَاع وَقد اجْتمع عَلَى ضعفه الإِمَام أَحْمد وَأَبُو حَاتِم وَابْنه وَالدَّارَقُطْنِيّ وَالْبَيْهَقِيّ وَابْن الْجَوْزِيّ تَلْوِيحًا وَتَصْرِيحًا وَالله أعلم.وَذكره النَّسَائِيّ فِي كتاب الكنى فَقَالَ أَبُو ظَبْيَة شُجَاع عَن ابْن عمر رَوَى عَنهُ السّري بن يَحْيَى انْتَهَى.

(تخريج الكشاف : 3/414 ، ط : دار ابن خزيمة)

           

الصواب من الله ورسوله ، والخطأ مني ومن الشيطان

كتبه

ابن سعيد النعماني

اپنا تبصرہ بھیجیں