تبدیل ماہیت اہم مسائل و فتاوی

 فقہیات

(قسط نمبر 4)

تبدیل ہونے والے عناصر :

حقیقت و ماہیت کی تبدیلی کب تسلیم کی جائے گی؟ اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ اگر نقلابِ کلی متحقق ہوجائے تو ماہیت کی تبدیلی مسلم ہوگی اور شرعی حکم بھی بدل جائے گا، لیکن انقلاب جزوی طورپر پایا جاتا ہو تو ایسے بنیادی اجزاء کے بدلنے پر حکم لگے گا، جس پر حکم شرعی دائرہے، مثال شراب اور سرکہ کی دی جاچکی ہے۔

دوسری صورت میں اشیاء کے خواص و آثار اور بنیادی اجزائے ترکیبی معلوم کرنے کے لیے ماہرین سے رائے لینا، اس پر غور کرنا پھر اطمینان کی صورت میں اس پر حکم لگانا ضروری ہے،کیوں کہ ہر شخص کے لیے ہر چیز کے خواص و آثار کا علم مشکل ہے۔

نام بدلنا کافی نہیں :

محض نام بدلنا کافی نہیں، اس لیے کہ انقلابِ ماہیت کے بعد ہی نام بدلنا معتبر ہے، درج ذیل صورتوں میں نام بدلنے کے باوجود حکم نہیں بدلا ہے، اس لیے قلبِ ماہیت کے بغیر ہی نام بدلا ہے:

الف) ناپاک دودھ پنیر یا ٹوفی یابسکٹ بن جائے۔

ب) ناپاک گیہوں آٹا ہوجائے۔

ج) ناپاک آٹا روٹی ہوجائے۔

د)  پیشاب کی شوریت سے نمک تیار کرلیا جائے۔ (فتاویٰ مظاہر علوم:۱/۵،۹)

ھ) خنزیر کے بال کا برش بن جائے۔ (محمودیہ:۱۱/۲۹۱)

و)  ناپاک انگور جوس بن جائے وغیرہ۔

صورت وہیئت بدلنا کافی نہیں :

صورت وہیئت بدلنابھی کافی نہیں ہے، اس لیے کہ کیمیاوی تجزیہ میں صورت وہیئت بدل جاتی ہے،مگر ماہیت نہیں بدلتی۔

رنگ، بو اور مزہ کی تبدیلی :

پانی اور اس طرح کی سیال چیزوں میں رنگ، بو اور مزہ کی تبدیلی معتبر ہے، ہر چیز میں محض انہیں چیزوں کی تبدیلی کو معیار نہیں بنایا جاسکتا ہے، اس لیے کہ ہر چیز کی خاصیت الگ ہوتی ہے۔

فقہائے احناف کے یہاں پاکی کا حکم لگانے میں زیادہ احتیاط :

فقہائے احناف نے طہارت وحلت کے مقابلہ میں حرمت ونجاست کا زیادہ خیال کیا ہے، چنانچہ حلال چیز کے حرام ہونے اور پاک کے ناپاک ہونے میں محض ایک وصف کے انقلاب کو کافی سمجھا گیا ہے، ایک وصف کے بدل جانے سے اور اس کے ناپاک ہونے سے ناپاک ہونے کا حکم لگایاجاتا ہے اور ناپاک وحرام کو پاک اور حلال قرار دینے میں سارے اجزاء کے حلال اور پاک اجزاء سے بدل جانے کو ضروری قرار دیا جاتاہے، اس کے بغیر انقلاب متحقق نہیں ہوتا، یہی موقف راجح، مختار اور مفتی بہ ہے۔ (تفصیل کے لیے دیکھیے: البحرالرائق:۱/۳۹۴)

اگر پکائی جانے والی چیز میں ناپاک چیز مل جائے :

اگرپکائی جانے والی چیز میں کوئی ناپاک چیز اس طرح مل جائے کہ اس کا جدا کرنا ممکن نہ ہو تو اس کی وجہ سے پوری چیز ناپاک ہوجائے گی، خواہ وہ ناپاک چیز غلطی سے گرگئی ہو یا کسی نے اس میں قصداً اس کو ڈالا ہو دونوں کا حکم ایک ہے، ردالمحتار میں ہے:

”وَلَوْ صُبَّتِ الخمرُ فِيْ قِدْرٍ فِیْہَا لَحْمٌ انْ کَانَ قَبْلَ الْغلَیَانِ یَطْہُرُ اللَّحْمُ بالغَسْلِ ثلاثاً، وَانْ بَعْدَہ فلا․․․․ وفي الخانیة: اذا صبَّ الطَّبَّاخُ في القدرِ مکانَ الخَلِّ خَمْرًا غَلَطًا فَالْکُلُّ نَجِسٌ لَایَطْہُرُ أبدًا․․․ وَکذا الْحِنْطَةُ اذَا طُبِخَتْ فِی الْخَمْرِ لَاتَطْہُرُ أبدًا“ * (ردالمحتار:۱/۲۴، رشیدیہ)

ترجمہ: اگر ایسی ہانڈی جس میں گوشت تھا، شراب ڈال دی گئی تو اگر جوش مارنے سے پہلے (ڈالی گئی) ہے تو گوشت تین بار دھونے سے پاک ہوجائے گا اور اگر جوش مارنے کے بعد (شراب ڈالی گئی) ہے تو گوشت پاک نہیں ہوگا․․․ اور فتاویٰ خانیہ میں ہے کہ جب باورچی ہانڈی میں غلطی سے سرکہ کی جگہ شراب ڈال دے تو سارا کھانا ناپاک ہوجائے گا، کبھی پاک نہیں ہوگا․․․ اور یہی حکم اس وقت بھی ہے جب کہ گیہوں شراب میں پکالی جائے تو گیہوں کبھی پاک نہیں ہوگا۔

اس سلسلے میں حضرت مفتی کفایت اللہ صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

”بعض آثار کا زائل ہوجانا یا بوجہِ قلت، آثار کامحسوس نہ ہونا موجبِ انقلاب نہیں، جیسا کہ فقہاء نے تصریح کی ہے کہ اگرآٹے میں کچھ شراب ملاکر گوندھ لیاجائے اور روٹی پکالی جائے تو وہ روٹی ناپاک ہے، یا گھڑے دو گھڑے پانی میں تولہ دو تولہ شراب یا پیشاب مل جائے تو وہ پانی ناپاک ہے، حالانکہ روٹی یا پانی میں اس قلیل المقدار شراب کا کوئی اثر محسوس نہ ہوگا، لیکن چوں کہ شراب نے ان صورتوں میں فی نفسہ  اپنی حقیقت نہیں چھوڑی ہے، اس لیے ناپاکی کا حکم باقی ہے اور محسوس نہ ہونا بوجہِ قلتِ اجزاء کے ہے، چوں کہ شراب کے اجزاء کم تھے اور آٹے کے زیادہ، اسی لیے وہ روٹی میں محسوس نہیں، پس یہ اختلاط ہے نہ کہ انقلاب“۔ (کفایة المفتی:۲/۲۸۳-۲۸۴، بدائع الصنائع:۱/۷۸)

انقلاب اوراستہلاک میں فرق :

مذکورہ بالا مسئلے کو سمجھنے کے لیے انقلاب اور استہلاک میں فرق سمجھا ضروری ہے، وہ یہ ہے کہ ”انقلاب“ میں ایک چیز دوسری چیز ہوجاتی ہے اور ”استہلاک“ چوں کہ اختلاط کی آخری شکل ہے، اس لیے ایک چیز دوسری چیز میں مل کر اپنی پہچان ختم کرلیتی ہے، قلیل مقدار ہونے کی وجہ سے وہ دوسری چیز میں اس طرح رَل مل جاتی ہے کہ اس کا جدا کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ ”الموسوعة الفقہیه“ میں استہلاک کی تعریف اس طرح کی گئی ہے:

ہُوَ تَصَیُّرُ الشَّيْءِ ہَالِکاً أوْ کَالْہَالِکِ أَوِاخْتِلَاطُہ بِغَیْرِہ بِحَیْثُ لَایُمْکِنُ افْرَادُہ بِالتَّصَرُّفِ کَا اسْتِہْلاکِ السَمَنِ فِي الْخُبْزِ․ (۴/۱۲۹، کویت)

ترجمہ: استہلاک کسی چیز کا ہلاک ہونا یا ہلاک ہونے والے کی طرح ہوجانا ہے یا اپنے غیر میں اس طرح رلنا ملنا ہے کہ کسی طرح اس کا الگ کرنا ممکن نہ ہو، جیسے: گھی کا روٹی میں رل مل جانا۔ (اسی طرح شکر کا دودھ میں مل جانا وغیرہ)

الکحل کی تحقیق :

الکحل (اسپرٹ) یہ انگریزی زبان کا لفظ ہے، یہ عربی کے لفظ ”الغَوْلُ“ (درد، نشہ) سے بنا ہے، قرآن مجید میں ہے:لافیہا غَوْلٌ ولاہم عنہا یُنْزَفُون  (صافات:۴۷)

ترجمہ: (جنت کی شراب میں) نہ تو درد سر ہوگا اور نہ اس سے عقل میں فتور آئے گا۔

الکحل ایک سیال نشہ آور، بیرنگ، پانی سے ہلکا، بھاپ بن کر اڑجانے والا مادّہ ہے، یہ گیس کی تین قسموں سے بنتا ہے، یعنی کاربن، ہائیڈروجن اور آکسیجن سے مل کر تیار ہوتا ہے، اس کی علامت یہ ہے کہ اس میں ایک قسم کی بو ہوتی ہے اور ذائقہ آتشی ہوتا ہے۔

الکحل کی دو قسمیں ہیں:

میتھائیل (Methyl) اورایتھائیل (Ethyl) 

ایتھائیل کا استعمال زیادہ ہوتا ہے مثلاً ہومیوپیتھک دواؤں میں کھانسی کے شربت میں، جسم کو سُن کرنے میں، پینٹ میں اور صابن وغیرہ میں اس کا استعمال عام ہے، یہ ”مولاسیس“ سے بنایا جاتا ہے، گنے کے رَس سے شکر کے دانے بنانے کے بعد جو مادہ بچ جاتا ہے، اس میں تیس فی صد شکر ہوتی ہے جو دانوں میں تبدیل نہیں ہوسکتی؛ اسی کو ”مولاسیس“ کہتے ہیں۔ (جدید فقہی تحقیقات: ۱۰/۴۶۔ تلخیص)

شیخ الاسلام حضرت مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہم  لکھتے ہیں:

”میرا خیال ہے کہ الکحل کی زیادہ تر قسمیں انگوری شراب سے نہیں بنائی جاتیں، بلکہ دوسری چیزوں سے بنائی جاتی ہیں، مثلاً: شہد، حبوب، جو، انناس، گندھک اور دوسرے پھلوں کے رَس سے الکحل زیادہ تر حاصل کیا جاتا ہے، عموم بلویٰ کی وجہ سے شیخین کے مسلک پر عمل کرنے کی گنجائش ہے“۔ (مستفاد تکملہ فتح الملہم:۹/۴۹۸، فیصل دیوبند)

معلوم ہوا کہ شرعاً گنجائش ہے، مگر جن چیزوں اور جن دواؤں میں الکحل کی آمیزش نہیں ہوتی ان کے استعمال کو ترجیح دینا ہی بہتر ہے۔

(ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ9 ، جلد: 99 ‏، ذی قعدہ 1436 ہجری مطابق  ستمبر 2015ء

انقلابِ ماہیت – اسلامی نقطہٴ نظر)

ناشر: دارالریان کراتشی

اپنا تبصرہ بھیجیں