تبدیل ماہیت کی بابت اہم فتاوی

(قسط نمبر 1)

اس  دنیا میں آئے دن انقلاب وقوع پذیر ہورہے ہیں، یہی اس دنیا کا حسن بھی ہے اور یہی اس کی بے ثباتی کی دلیل بھی  یہاں کے تغیر وتبدل بتاتے ہیں کائنات میں جب بھی کچھ ترقی ہوگی تب کچھ نہ کچھ فنا ہوگا اور کچھ نیا وجود میں آئے گا  اسی تغیر وتبدل کے لیے عام طور پر لفظ ”انقلاب“ اور ”تبدیل“ استعمال ہوتا ہے اور عربی زبان میں اس کے لئے لفظ ”استحالہ“ مستعمل ہے، چونکہ یہ موضوع اہل علم کے لئے فی زمانہ بہت اہم ہے، اسی مناسبت سے اکابر و اہل علم حضرات کی تحریرات اور فتاوی جات کی روشنی میں کچھ گزارشات پیش کرنا مقصود ہیں، تاکہ اس علمی میدان میں مزید جہد و فکر کرکے امت کی رہنمائی کی جاسکے، جدید فضلاء اور تخصص فی الافتاء کے لئے بغرضِ افادہ عام پیش خدمت ہے، اس میں مزید کوئی رہنمائی ہو تو ضرور آگاہ کریں۔ (سفیان بلند)

استحالہ و انقلاب کی تعریف :

”استحالہ“ کی تعریف یہ ہے:

تَغَیُّرُ مَاہِیَّةِ الشَّيءِ تَغیُّرًا لاَ یَقْبَلُ الاعَادَةَ (کسی چیز کی حقیقت کا اس طرح بدل جانا کہ وہ پہلی حالت کی طرف لوٹ نہ سکے) ”انقلاب“ کی تعریف یہ ہے: 

تَحوُّلُ ماہیةِ الشيء الی ماہیةٍ أخری

(کسی چیز کی حقیقت کا دوسری حقیقت میں بدل جانا) (معجم لغة الفقہاء)

ان دونوں تعبیرات میں پہلی تعبیر زیادہ واضح ہے، جس کا حاصل یہ ہے کہ کوئی چیز اپنی ہی ذات کا غیر ہوجائے اور اس حد تک پہنچ جائے کہ وہ اپنی پہلی حالت کی طرف لوٹ نہ سکے، اگر وہ اپنی پہلی حالت کی طرف لوٹنے کی صلاحیت رکھتی ہے اس کو انقلاب واستحالہ تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔

کیا انقلابِ ماہیت ممکن ہے ؟

انقلابِ ماہیت ممکن اور وقوع العمل ہے، عقل و شرع نے اس کو تسلیم کیا ہے، البتہ انقلابِ ماہیت کے محال ہونے کی رائے بھی بعض اہل علم کی ہے جس کو کمزور رائے کہا جاتا ہے، فقہائے کرام نے ان کا اعتبار نہیں کیا ہے، احناف کا مفتی بہ مذہب بھی یہی ہے کہ انقلابِ حقیقت اور تبدیل ِ ماہیت ممکن ہے، فقہ حنفی کے اکثر متون و شروحات میں اس کی صراحت موجود ہے، بنیادی طور پر یہ امام محمد رحمہ اللہ کا قول ہے جس کو بعض مشائخ احناف نے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا نقطہ نظر بھی قراردیا ہے اور اکثر مشائخ اسی کے قائل ہیں۔

(طحطاوی علی المراقی: 86، دمشق، البحرالرائق 239/1، فتح القدیر 139/1 ، رد المحتار 291/1 ) 

● علامہ شامی رحمہ اللہ کے نزدیک دلائل کی رو سے یہی بات ثبوت تک پہنچتی ہے:

”وَالظَّاہِرُ أنَّ مَذْہَبَنَا ثُبُوْتُ اِنْقِلاَبِ الْحَقَائِقِ بِدَلیلٍ مَا ذَکَرُوْہُ فِي انْقِلاَبِ عَیْنِ النِّجَاسَةِ کَاِنْقِلاَبِ الْخَمْرِ خَلًّا وَالدَّمِ مِسْکاً وَنَحْوِ ذٰلِکَ وَالله اعلم․ (رد المحتار: 239/1، رشیدیہ، بحر، فتح القدیر)

ترجمہ: اور ظاہرسی بات ہے کہ ہمارا مسلک انقلابِ ماہیات کے ثبوت کا ہے، اس دلیل کی وجہ سے جو فقہائے کرام نے عین نجاست کے بدلنے میں ذکر فرمائی ہے، جیسے شراب کا سرکہ بن جانا اور خون کا مشک بن جانا اور اس جیسی دوسری چیزیں (رد المحتار) ․․․․ تو ہم نے سمجھ لیا کہ عین کا بدلنا اس وصف کے ختم ہوجانے کے تابع ہے جو اس (عین) پر مرتب ہوتا ہے۔

● حضرت مولانا مفتی نظام الدین صاحب رحمہ اللہ نے انقلابِ ماہیت کو اپنے الفاظ میں اس طرح تعبیر فرمایا ہے:

”قلبِ ماہیت یہ ہے کہ سابق حقیقت معدوم ہوکر نئی حقیقت ونئی ماہیت بن جائے، نہ پہلی حقیقت وماہیت باقی رہے، نہ اس کا نام باقی رہے، نہ اس کی صورت وکیفیت باقی رہے، نہ اس کے خواص وآثار وامتیازات باقی رہیں؛ بلکہ سب چیزیں نئی ہوجائیں، نام بھی دوسرا، صورت بھی دوسری، آثار وخواص بھی دوسرے، اثرات و علامات اور امتیازات بھی دوسرے پیدا ہوجائیں، جیسے: شراب سے سرکہ بنالیا جائے۔“ (منتخبات نظام الفتاویٰ: ۱/۲۶، ۲۷، اسلامک فقہ اکیڈمی دہلی)

● حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی مدظلہم فرماتے ہیں کہ :

”صورت اور اوصاف سہ گانہ (رنگ، بو، مزہ) کی تبدیلی سے تحویل ِ حقیقت ہو جاتی ہے، گو کسی شئی کا قوام اور مادہ باقی رہے، جیسے شراب سرکہ بن جائے تو اصل مادہ باقی رہتا ہے، اوصاف اور اثرات میں تبدیلی آتی ہے۔(قاموس الفقہ 94/2)

انقلابِ ماہیت کی اہم مثالیں :

فقہائے کرام نے کچھ اہم مثالوں اور جزئیات کو ذکر کرکے یہ ثابت کیا ہے کہ تبدیل ماہیت ممکن الوقوع ہے، مضمون ہذا کو سمجھنے کے لئے یہ بہت اہم ہیں :

1- تخلیقِ انسانی کے مراحل قرآنِ کریم نے مختلف مراحل ذکر کئے ہیں، پہلا مرحلہ ”جوہرِغذا“ (مٹی کا خلاصہ) کاہے، جس سے خون بنتا ہے، مٹی کا خلاصہ پاک ہے؛ لیکن خون بننے کے بعد وہ ناپاک ہوگیا، پھر خون سے ”نطفہ“ اور نطفہ سے ”علقہ“ بنا، یہ دونوں ناپاک ہیں، پھر جب علقہ ”مضغہ“ (بوٹی) بنا تو وہ پاک ہوگیا اور اخیر مرحلہ تک پاک رہا یعنی مضغہ سے ”عظام“ (ہڈی) بنا اوراس پر ”گوشت“ چڑھا پھر ”انسان“ بن کر تیار ہوگیا۔ 

(سورة المؤمنون؛ ردالمحتار:۱/۲۳۹، رشیدیہ)

2- زمین پر نجاست گرتی ہے تو اس پر ناپاکی کا حکم لگتا ہے؛ لیکن نجاست کے اثر کے ختم ہوجانے کے بعد زمین پاک ہوجاتی ہے، اس پر تیمم کرنا جائز ہوجاتا ہے، تیمم سے انسان حکماً پاک ہوجاتا ہے۔

3- پھلوں کا رس پاک ہے، مگرشراب بننے کے بعد ناپاک ہوجاتاہے، پھر سرکہ بننے کے بعد اس پر پاکی کا حکم لگ جاتاہے۔

وَالعصیرُ طاہرٌ فَیَصِیْرُ خَمْرًا فینجُسُ ویصیرُ خلاًّ فَیَطْہُرُ․(ردالمحتار:۱/۲۳۹، رشیدیہ)

4- انسان اور جانور کے فضلات کو جلا کر راکھ بنادینا۔

5- کتا، خنزیر اور گدھے کا نمک کی کان میں گر کر نمک بن جانا۔

6- لید کا کنویں میں گر کر کالی مٹی بن جانا۔

7- صابون میں ناپاک تیل اور مردار کی چربی ملانا۔

8- نجس مٹی سے اینٹ بناکر پکالینا۔

9- گندے پانی سے نمک بنالینا۔

10- گوریّا (چڑیا) کا کنویں میں گر کر مٹی بن جانا۔

(قاموس الفقہ و مضمون انقلاب ماہیت از مفتی اشتیاق احمدقاسمی مدظلہم ) 

ناشر : دارالریان کراتشی

اپنا تبصرہ بھیجیں