طمانچہ

میم ! میم ! میں جیسے ہی ڈیپارٹمنٹ میں داخل ہوئی آنرز کا ایک گروپ دوڑتا ہوا میری جانب بڑھا
کیا ہو گیا بھئی ایسی کیا اُفتاد آن پڑی جو پورا گروپ اس طرح سر پر موجود ہے ،میں نے مصنوعی خفگی سے کہا
میم ! ایک لڑکی یہ پمفلٹ دے گئی ساتھ ہی ہمیں کہہ گئی تھی ’’سوچنا ضرور‘‘ وہ اتنی تیزی سے آئی اور گئی کہ ہم اس سے اس کا نام بھی نہ پوچھ سکے
اس پمفلٹ میں ایسا کیا لکھا ہے کہ جو تمہارے چہرے اترے ہوئے ہیں ۔
آپ خود ہی پڑھ لیجیے ہم میں سُنانے کی ہمت نہیں ۔ آنر کی طالبہ رقیہ نے وہ پمفلٹ میری جانب بڑھا دیا۔
میں نے رقیہ کے ہاتھ سے وہ پمفلٹ لے کر دیکھا تو وہ واقعی اس لائق نہیں تھا کہ پڑھ کر سُنایا جائے اسلام اور پیغمبر اسلام ﷺ پر اعتراضات اور انتہائی گستاخی کے ساتھ موجود تھے ۔’’مسلمانوں کے اخلاقی حقوق ‘‘اس پمفلٹ کا عنوان تھا ۔
کیا کرنا ہے اب ! میں نے اپنی اسٹوڈینٹس سے پوچھا
جواب دینا ہے اس گستاخانہ پمفلٹ کا ان بناسپتی لبرلز اورملحدین کوتو جواب دو اور بہت شاندار جواب دو
میم !آپ ہماری کچھ رہنمائی تو کر دیں پورے گروپ نے ایک آواز ہوتے ہوئے کہا
دیکھو ! اس بے ادب و گستاخ کے الفاظ تو نقل نہیں کر نااندازہ اس سے لگا لو یہ ملحد خود کو بہت باخلاق سمجھتے ہیں لیکن ان کا اندازِ تحریر دیکھا تم نے اخلاقی پستی کا اتنا گھٹیا مظاہرہ تو مستشرقین کی تحریر میں بھی نہیں ہوتا۔
پہلا سوال :نبی ﷺ کا نام کوئی بے ادبی سے یا منہ بگاڑ کر لے تو یہ کفر گستاخی اور تم ابو جہل رکھ دو اپنے مخالف کا نام پوری اُمت چودہ سو سال سے ابو جہل پکار رہی ہے یہ بد اخلاقی کیوں ؟
اب اس سوال کو چھوڑو مجھے ایک بات بتاؤ تم سب لوگ مختلف شہروں اور علاقوں سے تعلق رکھتی ہو، تمہارے علاقے میں کوئی نامور چھٹا ہوا غنڈہ ہو گا ، سگریٹ اس کے منہ میں ہوگی ،شراب وہ پیتا ہو ،گالی گلوچ وہ کرتا ہوں کمزوروں کو تنگ کرنا اس کا مذاق ہو بدکار وہ ہو محلے کی شریف عورتوں کا جینا اس نے حرام کررکھا ہو بھتہ لوگوں سے وصول کرتا ہو کمزور کا مال کھا جاتا ہو جتنی رذیل عادتیں کسی انسان میں ہو سکتی ہیں وہ اس میں ہوں اب تم خود بتاؤ غیر جانبدار ہو کر تم نے کبھی اپنے علاقے کے کسی ملحد کو دیکھا ہے وہ اس سے جا کر کہتا ہو  ڈاکٹر صاحب !کیسے مزاج ہیں ،پروفیسر صاحب گھر تشریف لائیے گا نا! عالی مرتبت ، علامہ صاحب !آپ جیسے آدمی کی صحبت میرے باعث عزت و صد افتخار ہو گی  
پوری کلاس قہقہہ لگا کر ہنس پڑی میں خود بھی مسکرا دی تھوڑی دیر پہلے ان بچیوں کے منہ اترے ہوئے تھے اب میرے ہاتھوں ملحدین کے اس پمفلٹ کا پوسٹ مارٹم دیکھ کر خوش ہو رہی تھیں۔
اچھا تو جناب !یہ بتائیے اس انسان نما جانور کو تمام لوگ بشمول اخلاقیات کے چیمپئن ملحد و لبرل بھی اسے جاہل اُجڈ گنوار رذیل وغیرہ کہہ کر ہی پکارتے ہیں نا!
اب بھی اگر اعتراض باقی ہے تو ان ملحدین کے ابّو ،ابو جہل ! کو کیا نام دینا چاہیے یہ ملحدین بتا دیں ۔
دوسرا سول : دوسرے نبوت کے دعویداروں کو’’ کذّاب‘‘ کہیں یہ اخلاقیات کے خلاف ہے
لیجیے جناب ! یہ سوال تو کسی بچہ سے بھی پوچھا جائے تو وہ بھی جواب دے دے گا
رقیہ دعویٰ کر دے کہ وہ پاکستان کی وزیر ِ اعظم ہے اور اس کو کچھ لوگ وزیر اعظم مان بھی لیں تو آپ سب رقیہ کو جھوٹا اور اس کے ماننے والوں کو احمق کے علاوہ اور کیا کہیں گے اب جن لوگوں نے نبوت کا دعویٰ کیا وہ جھوٹے تھے اور آئندہ بھی کوئی نبی نہیں آئے گا نبوت کا باب اب بند ہو چکا لہذا اگر کوئی ملحدین و مستشرقین کا ٹاؤٹ نبوت کا دعویٰ کرے تو اسے جھوٹا ہی کہا جائے گا
تیسرا سوال : کوئی غیر مسلم اگر اسلام کو پڑھنے کے بعد جاہلانہ و ظالمانہ مذہب کہے تو یہ اس کا تعصب ہے لیکن اگر اسلام کا نام لیوا بچہ بچہ دوسرے تمام مذاہب کو بغیر پڑھے گمراہ و باطل کہے تو یہ ان کا حق ہے۔
پہلی بات تو ملحدین کا یہ اعتراض ہی غلط جب مذہب ہے ہی نہیں تو اسلام کیا اور دوسرے مذاہب کیا اور یہاں ایک اور خاص بات آپ نوٹ کیجیے گا ان ملحدین کی یہ اسلام کے خلاف ایسے بولیں جیسے مذہب صرف اسلام ہے۔ بھائی ! باقی مذاہب بھی موجود ہیں ان پر بھی کچھ بول لو اپنی تمام تر توانائیاں اسلام ہی کے خلاف بس ۔
لیکن میم !اس سال کا جواب کیا ہو گا سلمیٰ نے مسکراتے ہوئے کہا
یہ بھی بھلا کوئی سوال ہے کسی نفیس و خوشبو دارچیز کو آپ اچھی طرح دیکھیں اور کہہ دیں یہ تو خراب و بدبو دار ہےتو ایسے شخص کو سوائے اس کے کیا کہیں گے تیری ناک اور دماغ میں بدبو ہے اس کا ہمارے پاس کیا علاج
ملحدین سے یہی عرض کر سکتے ہیں دیکھو بھائی ! اتنی سمجھ تو اللہ تعالیٰ نے جانور کو بھی عطا کی ہے کیا چیز اس کے کھانے کی ہے اور کیا نہیں یہ تو پھر انسانوں کا بچہ ہے اور ہے بھی اسلام کا نام لیوا تو بچہ یہ جانتا ہے ،اسلام سے بہتر کوئی مذہب ہو ہی نہیں سکتا بدبو دار چیزوں کو یہ کہہ کر چھوڑ دیتا ہے یہ گمراہ اور باطل ہیں ۔سب کے چہروں پر مسکراہٹ تھی چوتھا سوال نبیلہ نے کہا
ہاں چوتھا سوال کیا لکھا ہے
چوتھا سوال لکھا ہے کوئی غیر مسلم اسلام کے کسی مسئلہ پر عمل کرنے والے کو اگر گالی دے تو وہ بد اخلاق و غیر مہذب قرار پائے گا لیکن اگر اسلام کے ماننے والے سود کھانے کھلانے والے کو ماں سے زنا کی تہمت لگائیں تو وہ بدستور اخلاق کے چیمپئین بنے رہیں گے۔ نبیلہ نے پمفلٹ سے چوتھا سوال پڑھ کر سُنایا
اکیسویں صدی میں ملمع کاری کی انڈسٹری اپنے عروج پر ہے الفاظ کا ہیر پھیر اصطلاحات کی جادو گری نے نائی کو حجام بنایا پھرہیرڈریسر بنا اور اب باربر کہلاتاہے کل کے بھانڈ میراثی آج اداکار ،فنکار اور آرٹسٹ بن گئے خیر ہمیں کیا لینا دینا اس سے مگر معاملہ یہ ہوا کہ سود کو منافع کہنے لگے اب اس صراحتاً حرام شئے پر ملمع کاری حد ہوگئی
حد ہوتی ہے ناسمجھی اور حماقت کی یہ کیسے انسان ہیں جواپنے ہی نظریے پر کلہاڑی مار لیتے ہیں ان بے چارے فارمی ملحدوں سے پوچھو تو سہی تم تو انسانیت کے دعوے دار ہو تمہارا تو نظریہ ہی انسان سے شروع ہو کر انسان پر ختم ہوتا ہے سود جیسی سماجی لعنت کے خلاف تو تمہیں سب سے پہلے آگے ہونا چاہیے تھا یہ تو وہ نا سور ہے جس کی وجہ سے کئی گھروں کے چراغ گل ہوگئے کئی پاکیزہ بیٹیاں اپنی عفت وعصمت بیچنے پر مجبور ہو گئیں بچے نیلام ہوگئے اس سودی نظام اور اس سود کی سفاکیت کا انہیں رتی برابر اندازہ بھی ہے انہیں اس کا رتی برابر اندازہ نہیں ہے یہ سود کیسا معاشرتی جبر ہے بھوک کو کس طرح جنم دیتا ہے نہیں نہیں بلکہ بھوک کی پرورش کرتا ہے امیر ریاستیں امیرتر ہوتی چلی جا رہی ہیں I.M.Fاور ورلڈ بینک کے بظاہر خوشنما اور درحقیقت وحشت ناک سودی قرضےبنی نوع انسان سے ان کے انسان ہونے کا خراج وصول کررہے ہیں جہاں امیر ،امیر سے امیر تر ہوتا جارہا ہے غریب غربت سے موت کی دہلیز تک کا سفر سسکتے ہوئے طےکررہا ہے اس تکلیف کا احساس محسن ِ انسانیت کے سوا کس کے پاس ہو سکتا تھا اس درد کا درماں پیغمبرِ اسلام ﷺ کے سوا کون دے سکتا تھا یہ ملحد ،لنڈا کے لبرل تو آج بھی انسا ن کا نام لے کر اس انسان کو نوچ رہے ہیں انہوں نے لبرل ازم کا چولا اوڑھا ہے اندر سےیہ بھیڑیے ہیں۔
اب خود بتاؤ اس سود کی مذمت انسانیت کی بقا کے لیے کتنی ضروری ہے جسےیہ تہمت کہہ رہے ہیں یہ توتہمت کی تعریف سے بھی واقف نہیں ہیں فارمی لبرل ۔
ان لنڈا کے لبرل سے ہم اتنا ہی کہہ سکتے ہیں تم سود کے نام پر اقوام کا استحصال کرتے رہو انسانیت کو ذلیل کرتے رہو خودکشی پر مجبور کرتے رہو اور تم انسانیت کے چیمپئن بھی بنے رہو ایسا نہیں ہو سکتا اسلام تمہیں انسانیت کا لبادہ وڑھ کر انسانیت سے کھلواڑ نہیں کرنے دے گا اب تمہاری مرضی حق قبول کرو یا اسلام کے خلاف بکواس کرتے رہو ویسے بھی کتوں کے بھونکنے سے چاند کی روشنی پر کوئی فرق نہیں پڑتا
اگلا سوال کیا ہے ؟میں نے طالبات سے پوچھا
پانچواں سوال : کوئی غیر مسلم اگر مسلمانوں کو ان کے اپنے پسندیدہ ناموں (جیسے مسلمان، مومن، اہل ایمان وغیرہ) کی بجائے “مُسلے” کہہ کر پکارے تو یہ ان کا تعصب و بد تہذیبی کہی جائے گی لیکن مسلمان دوسروں کو کافر، گمراہ، جہنمی قرار دیں تو یہ ان کا اسلامی و ایمانی حق مانا جائے گا۔
یہ تو کوئی سوال ہی نہیں مسلمان کو مسلمان کہا جائے گا اور کافر کو کافر کیونکہ کافرکے معنی انکار کرنے والےکے ہیں گمراہ انہیں کہا جاتا ہے جو راہ سے بھٹک گئے، اللہ تعالیٰ جس نے انہیں پیدا کیا اس کا ہی انکار کر بیٹھے اور اپنی پیدائش کے عمل کو بھول گئے ایسے لوگوں کو جہنم کا حقدار ان کے اسی عمل نے کیا ہے ایک شخص سچ بولتا ہے اسے سچا کہا جائےگا ایک شخص جھوٹ بولتا ہے جھوٹا کہا جائے گا ایک شخص فورس میں ہے اسے سپاہی کہا جائے گا ایک شخص اسکول ،کالج یا یونیورسٹی میں پڑھاتا ہے اسے استاد کہاجائے گا اب جو اللہ و رسول ﷺ کی مخالفت کرے سود اوربدکاری کو حلال سمجھے انسانیت کا نام لے کر انسانیت کو پامال کرے اب خود بتاؤ اس کو جہنمی نہ کہیں تو پھر کیا کہیں ۔
چھٹا سوال : کوئی غیر مسلم اگر مسلمانوں کو جانوروں سے تشبیہ دے تو وہ بدتمیز، ناہنجار اور اخلاقیات سے عاری سمجھا جائے گا لیکن اگر ہر مسلمان اپنے اللہ کی اتاری ہوئی کتاب کے مطابق غیر مسلموں کو جانوروں سے بھی بدتر سمجھے، ان پر کتے، گدھے اور خنزیر کی مثالیں فٹ کرے تو اس کے اعلیٰ ایمان و اخلاق کی سند سمجھی جائے گی۔
مجھے اس اعتراض پر اپنے ڈرائیور کا واقعہ یاد آگیا اس زمانے میں نیپا چورنگی پر فلائی اور نہیں بنا تھا بلکہ سگنل ہوا کرتے تھے سگنل بند تھا لہذا ڈرائیور نے گاڑی روک لی لیکن برابر میں ایک لڑکا تیز بائیک نکالتے ہوئے لے گیا سگنل بند تھا سامنے ہی کتا سڑک پار کر رہاتھا میرے ڈرائیور سے رہا نہ گیا اور کہنے لگا میڈم ! اس نوجوان لڑکے سے تو یہ کتا ہی بہتر ہے جس کو کم از کم سڑک پار کرنے کی تمیز تو ہے اس پڑھے لکھے جاہل لڑکے کو تو قانون اور قاعدے کا ہی نہیں پتا اپنی بھی جان خطرے میں ڈال رہا ہے اور دوسروں کی بھی
میں ڈرائیور کی بات سے محظوظ ہوئی میں نے ڈرائیور سے کہا بھئی یہ کیا بات کہی تم نے میں اس لڑکے کو جانتی ہو ں یونیورسٹی کا اسٹوڈینٹ ہے پڑھا لکھا ہے
ڈرائیور نے کہا : میڈم! معذرت ،اگر یہ پڑھا لکھا ہے تو پھر تو اس پڑھے لکھے سے تویہ کتا ہی بہتر ہے
کیا سمجھیں تم !جو انسان اپنے ہی جیسے انسان کا بنا یاہوا قانون توڑ دے وہ تو کتے سے بد تر ہوجائے اس بات کو ایک عام آدمی بھی اسی طرح کہتا ہے اور جو اپنے خالق کے قانون سے مکمل انکار کردے فطرت کے مخالف چلنا شروع کر دے او ر اس حد تک بے لگام ہوجائے کے خالق کا ہی انکار کر بیٹھے اس کو چوپائے سے بدتر نہ کہا جائے تو پھر خود ہی بتاؤ کیا کہا جائے ۔
ساتواں سوال : ☆ غیر مسلم اگر قرآن، کعبہ، مسجد یا اسی طرح مسلمانوں کے دیگر مقدسات کو جلانے یا ڈھانے کی بات کرے تو یہ اس کی انتہا پسندی، گستاخی اور مسلمانوں کی دل آزاری کا باعث ہے لیکن مسلمانوں کے بڑے بڑے دوسرے مذاہب کے مقدس مقامات، مقدس مورتیوں، مقدس صلیبوں کو جلاتے اور توڑتے آئے ہیں اور مزید اپنی اسلامی تعلیمات کے مطابق آئیندہ بھی دیگر مذاہب کے مقدس مقامات کو توڑیں گے، جلائیں گے تو یہ ان کا اپنے دین پر ایمان اور بنیادی اسلامی حق ہے۔
ملحدوں کو یہ سوال بھی زیب نہیں دیتا یہ تو مذہب کو مانتے ہی نہیں اس پر تو انہیں خوش ہونا چاہیے کے مذاہب کے ماننے والے ہی ایک دوسرے کے مذہب کو ختم کررہے ہیں لیکن اگر آپ بغور دیکھیں تو یہ سب سے زیادہ مخالفت اسلام کی کرتے ہیں ۔
اسلام کو چودہ سو سال سے زیادہ کا عرصہ گزر گیا خلفائے راشدین کے عہد سے خلافت عثمانیہ تک اور سلطنتِ مغلیہ سے لے کر پاکستان تک کہیں بھی حکومتی سطح پر ایسا نہیں ہوا اور اگر ایسا ہوتا تو مسلمانوں نے طویل عرصے تک اس دنیا پر حکمرانی کی اگر مسلمان ایسے ہوتے تو آج دنیا میں کوئی چرچ اور مندر نہ ہوتا اس کے برعکس آپ عیسائی مذہب کو اندلس میں دیکھ لیجیے یہ مسلمانوں کو قرطبہ کی مسجد میں نماز نہیں پڑھنے دیتےمساجد کو مندر میں تبدیل کر دیا گیا ہندوستان میں بابری مسجد کو شہید کر دیا گیا
آٹھواں سوال :کوئی غیر مسلم اگر اسلام کی تعلیمات سے متاثر ہو کر یا اپنے سابقہ مذہب کو کمزور جان کر چھوڑنا چاہے تو یہ اس کا بنیادی حق ہے اور جو اسے اسلام سے زبردستی روکنے کی کوشش کرے وہ ظالم ہے لیکن اگر کوئی مسلمان کسی دوسرے مذہب سے متاثر ہو کر یا اسلام کو غیر موزوں جان کر چھوڑنا چاہے تو یہ غداری کے مترادف بن جائے گا اور اس کو قتل تک کرنا بھی عین عدل و انصاف ہو گا۔
یہ سوال بھی ملحدین کا نہیں بنتا یہ تو مذہب کے خلاف ہیں لیکن میں نے پہلے ہی کہا یہ ملحد و لبرل صرف اسلام کے خلاف ہیں خیر اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اس دنیا میں مختلف مذاہب ، مختلف اقوام ہیں ہر مذہب کا اپنا ایک قانون ہے ہر ملت کے اپنے رسم ورواج ہیں ان کی پاسداری ان کا عقیدہ ہے اس کو یوں سمجھو سنگا پور میں منشیات فروش کی سزا موت ہے پاکستان میں منشیات فروش کی سزا موت نہیں ہے یا اور ممالک جہاں منشیات فروشوں کو سزائے موت نہیں دی جاتی اب کوئی سنگا پور کی حکومت سے کہے یہ کیا ظلم ہے تو سنگا پور والے کہیں گے وہ ہمارے ملک میں منشیات لے کر کیوں آیا کیا ہم نے اس سے کہا تھا ؟ کیا ہم نے اس کو منشیات اسمگل کرنے کا کوئی قانونی حق دیا ہے ،بالکل اسی طرح اسلام کا ایک قانون ہے کسی کے ساتھ زور زبردستی نہیں کرتا ،تاریخ اسلام گواہ ہے کہ مکمل طاقت و اختیار کے باجود کسی کو زبردستی مسلمان نہیں کیا جبکہ ہندوستان میں زبردستی مسلمانوں کو ہندو بننےپر مجبور کیا گیا گائے کا پیشاپ پینے پر مجبور کیا گیا حالانکہ انڈیا ایک سیکولر ملک ہے لیکن دیکھ لو ! یہ فرق ہے مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان ۔اب سوچ سمجھ کر اسلام قبول کیا چھان پھٹک کر آئے ہو اب اس اسلام کے دیس سے تم واپس نہیں جاؤ گے اس دیس کا قانون یہ ہے کسی نے آپ کو زبردستی اس دیس میں داخل نہیں کیا تھا
نواں سوال : تم اس رقص اور گانے کے خلاف ہو اگر یہ درست ہوتا تو قدرت کی طرف سے ودیعت کردہ کیفیت رقص مور کو کبھی عطا نہیں ہوتی اور کوئل کبھی گانا نہیں گاتی۔
لیجیے انہیں دنیا میں کوئی مدرس نہیں ملا جس سے یہ درس لیتے، لے دے کر جانور ہی رہ گئے جن سے یہ سیکھنا چاہتے ہیں اور پھر کہو کہ تم جانور سے کم تر ہو تو نا راض ہوتے ہیں کہ چوپایوں سے بد تر کیوں کہہ دیا ،ان سے کہو تمھیں اگر انسانیت یا جائز و ناجائز کا درس جانوروں اور پرندوں ہی سے لینا ہے،تو ضروری ہے کہ بھوک پڑنے پر سور کی طرح تم بھی اپنےفضلات ہڑپ کر جاو کیونکہ”اگر یہ ممنوع ہوتا تو قدرت یہ صلاحیت سور میں نہ رکھتی۔”
میم !آپ نے تو ان سوالا ت کو چٹکیوں میں حل کر دیا
میری بچیو! اتنے معمولی سوالات پر پریشان نہ ہوا کرو ان کے جوابات تو خود ہی دے دیا کرو
اگر خلاف ہیں تو ہونے دو جان تھوڑی ہے
یہ سب دھواں ہے آسمان تھوڑی ہے

اپنا تبصرہ بھیجیں