تعارف سورۃ المنافقون

یہ سورت ایک خاص واقعے کے پس منظر میں نازل ہوئی ہے ،جس کا خلاصہ یہ ہے کہ بنو المصطلق عرب کا ایک قبیلہ تھا ،جس کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ اطلاع ملی تھی کہ وہ مدینہ منورہ میں حملہ کرنے کے لئے لشکر جمع کررہا ہے ،آپ اپنے صحابہ کرام کے ساتھ خود وہاں تشریف لے گئے ،ان سے جنگ ہوئی اور آخر کار ان لوگوں نے شکست کھائی اور بعد میں مسلمان بھی ہوئے ،جنگ کے بعد چند دن آپ نے وہیں ایک چشمے کے قریب پڑاؤ ڈالے رکھا جس کا نام مریسیع تھا ،اسی قیام کے دوران ایک مہاجر اورایک انصار ی کے درمیان پانی ہی کے کسی معاملے پر جھگڑا ہوگیا،جھگڑے میں نوبت ہاتھا پائی کی آگئی ،اور ہوتے ہوتے مہاجر نے اپنی مدد کے لئے مہاجرین کو پکارا، اور انصاری نے انصار کو، یہاں تک کہ اندیشہ ہوگیا کہ کہیں مہاجرین اورانصار کے درمیان لڑائی نہ چھڑ جائے ،حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کو علم ہوا تو آپ تشریف لائے اور فرمایا کہ مہاجر اور انصار کے نام پر لڑائی کرنا وہ جاہلانہ عصبیت ہے جس سے اسلام نے نجات دی ہے ،آپ نے فرمایا کے یہ عصبیت کے بدبو دار نعرے ہیں جو مسلمانوں کو چھوڑنے ہوں گے ،ہاں مظلوم جو کوئی بھی ہو اس کی مدد کرنی چاہئیے ،اور ظالم جو کوئی ہو اسے ظلم سے باز رکھنے کی کوشش کرنی چاہئیے ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری کے بعد جھگڑا فرو ہوگیا،او رجن حضرات میں ہاتھا پائی ہوئی تھی ان کے درمیان معافی تلافی ہوگئی ،یہ جھگڑا تو ختم ہوگیا ،لیکن مسلمانوں کے لشکر میں کچھ منافق لوگ بھی تھے جو مال غنیمت میں حصہ دار بننے کے لئے شامل ہوگئے تھے ،ان کے سردار عبداللہ بن ابی کو جب اس جھگڑے کا علم ہوا تو اس نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ تم نے مہاجروں کو اپنے شہر میں پناہ دے کر اپنے سرپر چڑھا لیا ہے، یہاں تک کہ اب وہ مدینے کے اصل باشندوں پر ہاتھ اٹھانے لگے ہیں ،یہ صورت حال قابل برداشت نہیں ہے ،پھر اس نے یہ بھی کہا کہ جب ہم مدینہ واپس پہنچیں گے تو جو عزت والا ہے وہ ذلت والے کو نکال باہر کرے گا،اس کا واضح اشارہ اس طرف تھا کہ مدینے کےاصل باشندے مہاجروں کو نکال باہر کریں گے ،اس موقع پر ایک مخلص انصاری صحابی حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے ،انہوں نے اس بات کو بُرا سمجھا اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا کہ عبداللہ ابن ابی نے ایسا کہا ہے ،آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن ابی سے پوچھا تو وہ صاف مکر گیا کہ میں نےیہ بات نہیں کہی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے درگزر فرمایا کہ شاید حضرت زید بن ارقم کو غلط فہمی ہوئی ہو ،حضرت زید بن ارقم کو یہ رنج تھا کہ عبداللہ ابن ابی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ان کو جھوٹا بنایا ،ا س کے بعد آپ اپنے صحابہ کے ساتھ وہاں سے روانہ ہوگئے ابھی مدینہ منورہ نہیں پہنچے تھے کہ یہ سورت نازل ہوگئی جس نے حضرت زید بن ارقم کی تصدیق کی او رمنافقین کی حقیقت واضح فرمائ

اپنا تبصرہ بھیجیں