تعارف سورۃ الممتحنۃ

یہ سورت صلح حدیبیہ اور فتح مکہ کے درمیانی عرصے میں نازل ہوئی ہے ان دونوں واقعات کی تفصیل پیچھے سورۂ فتح کے تعارف میں گزرچکی ہے

اس سورت کے بنیادی موضوع دو ہیں

ایک صلح حدیبیہ کی شرائط میں جو بات طے ہوئی تھی کہ اگر مکہ مکرمہ سے کوئی شخص مسلمان ہوکر مدینہ منورہ آئے گا تو مسلمان اسے واپس بھیجنے کے پابند ہوں گے اس کااطلاق مسلمان ہوکر آنے والی عورتوں پر نہیں ہوگا اور اگر کوئی عورت مسلمان ہوکر آئے گی تونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کا جائزہ لے کر دیکھیں گے کہ کیا واقعی مسلمان ہوکر آئی ہے تو پھر اسے واپس نہیں بھیجا جائے گا اس صورت میں اگر وہ شادی شدہ ہو اور ا س کا شوہر مکہ مکرمہ میں رہ گیا ہو اس کے نکاح او رمہر وغیرہ سے متعلق کیا احکام ہوں گے ؟

وہ بھی اس سورت میں بیان فرمائے گئے ہیں اور جن مسلمانوں کے نکاح میں ابھی تک بت پرست عورتیں تھیں ان کے بارے میں یہ حکم دیاگیا ہے کہ اب وہ ان کے نکاح میں نہیں رہ سکتیں چونکہ اس سورت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ان عورتوں کا امتحان یا جائزہ لینے کا حکم دیاگیا تھا  اس لئے اس سورت کا نام ممتحنہ ہے یعنی امتحان لینے والی۔

 

سورت کا دوسرا موضوع جو بالکل شروع میں بیان ہوا ہے وہ یہ ہے کہ مسلمانوں کے لئے غیر مسلموں سے کس قسم کے تعلقات رکھنا جائز ہے اورکس قسم کے ناجائز

چنانچہ سورت کو اس حکم سے شروع فرمایا گیا ہے کہ مسلمانوں کو دشمنوں سے خصوصی دوستی نہیں رکھنی چاہئے   ان آیتوں کے نزول کا پس منظر یہ ہے کہ سورۂ فتح کے تعارف میں ہم یہ بیان کرچکے ہیں کہ صلح حدیبیہ کے معاہدے کو مکہ مکرمہ کے کافروں نے دوسال کے اندر اندر ہی توڑدیا تھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کے لوگوں پر واضح فرمادیا تھا کہ اب وہ معاہدہ باقی نہیں رہا اس کے بعد آپ نے مکہ مکرمہ کے کفار پر ایک فیصلہ کن حملہ کرنے کی تیاری شروع فرمادی تھی لیکن ساتھ ہی کوشش یہ تھی کہ قریش کے لوگوں کوآپ کی تیاری کا علم نہ ہو اسی دوران سارہ نام کی ایک عورت جو گانا بجاکر پیسے کماتی تھی  مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ آئی اوراس نے بتایا کہ وہ مسلمان ہوکر نہیں آئی بلکہ وہ شدید مفلسی میں مبتلا ہے کیونکہ جنگ بدر کے بعد قریشِ مکہ کی عیش وعشرت کی محفلیں ویران ہوچکی ہیں اب کوئی اسے گانے بجانے کے لئے نہیں بلاتا اس لئے مالی امداد حاصل کرنے کے لئے آئی ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بنوعبدالمطلب کو اس کی مدد کرنے کی ترغیب دی اور اس کو کچھ نقدی او رکچھ کپڑے دے کر رخصت کیاگیا۔

 

دوسری طرف مہاجرین صحابہ کرام میں حضرت حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ ایک ایسے بزرگ تھے جو اصل میں یمن کے باشندے تھے اور مکہ مکرمہ آکر بس گئے تھے مکہ مکرمہ میں ان کا قبیلہ نہیں تھا وہ خود تو ہجرت کرکے مدینہ منورہ آگئے تھے لیکن ان کے اہل وعیال مکہ مکرمہ ہی میں رہ گئے تھے جن کے بارے میں انہیں یہ خطرہ تھا کہ کہیں قریش کے لوگ ان پر ظلم نہ کریں دوسرے مہاجر صحابہ جن کے اہل وعیال مکہ مکرمہ میں رہ گئے تھے انہیں تو کسی قدر اطمینان تھا کہ ان کا پورا قبیلہ وہاں موجود ہے جو کافروں کے ظلم سے انہیں تحفظ دے سکتا ہے لیکن حضرت حاطب کے اہل وعیال کو یہ تحفظ حاصل نہیں تھا جب سارہ نامی عورت مکہ مکرمہ واپس جانے لگی تو ان کے دل میں یہ خیال آیا کہ اگر میں قریش کےلوگوں کو خفیہ طور پر ایک خط میں یہ اطلاع دے دوں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم ان پر حملہ کرنے کی تیاری کررہے ہیں تو اس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا تو کوئی نقصان نہیں ہوگا کیونکہ اللہ تعالی نے آپ سے مکہ مکرمہ کی فتح کا وعدہ فرمارکھا ہے لیکن میری طرف سے قریش پر ایک احسان ہوجائے گا او راس احسان کی وجہ سے وہ میرے اہل وعیال کے ساتھ نرمی کامعاملہ کریں گے چنانچہ انہوں نے ایک خط لکھ کر سارہ کے حوالے کردیا کہ وہ قریش کے سرداروں کو پہنچادے ادھر اللہ تعالی نے وحی کے ذریعے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دے دی کہ سارہ ایک خفیہ خط لے کر گئی ہے اور روضہ خاخ کے مقام تک پہنچ چکی ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی ،حضرت مرثد اور حضرت زبیررضی اللہ عنہم کو اس مہم پر روانہ فرمایا کہ وہ اس عورت کا پیچھا کرکے اس سے وہ خط بر آمد کریں اوریہاں واپس لے آئیں یہ حضرات گئے او ر انہوں نے وہ خط برآمد کرلیا حضرت حاطب سے پوچھا گیا تو انہوں نے معذرت کی  اوراپنی اس غلطی کی وجہ بیان کی جو اوپر ذکر کی گئی ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی نیک نیتی کی وجہ سے ان کی اس غلطی کو معاف فرمادیا اسی واقعے پر اس سورت کی ابتدائی آیتیں نازل ہوئیں

اپنا تبصرہ بھیجیں