تعارضِ ادلہ کے متعلق علامہ ابن الہمام کی راے

علامہ ابن الہمام کی کتاب التحریر فی اصول الفقہ میں تعارض ِ ادلہ کی بحث میں اگرچہ زیادہ تر انحصار امام سرخسی ہی کی تحقیق پر کیا گیا ہے لیکن مختلف عوامل اور وجوہات کی بنا پر بعض مقامات پر انھوں نے حنفی مذہب کی مختلف توجیہ پیش کی ہے ۔ اس اختلاف کے تجزیے سے پہلے ضروری ہے کہ علامہ ابن الہمام کی راے کے بنیادی نکات کا خلاصہ یہاں پیش کیا جائے ۔ 

علامہ ابن الہمام نے تعارض کی یہ تعریف دی ہے : ” و فی الاصطلاح اقتضاء کل من الدلیلین عدم مقتضی الآخر ۔” (اصطلاح میں تعارض اسے کہتے ہیں کہ ایک دلیل کا مقتضا دوسری دلیل کے مقتضا کا عدم ہو ۔ ) الفاظ کے اختلاف کے باوجود یہ درحقیقت وہی تعریف ہے جو امام سرخسی نے ذکر کی ہے ۔ اس تعریف کی رو سے تعارض کے تحقق کے لیے دو دلیلوں کے درمیان محض اختلاف ہی کافی نہیں بلکہ ان میں تنافی کی نسبت ضروری ہے کہ ایک کا وجود دوسرے کے عدم کو مستلزم ہو ۔ اسی طرح امام سرخسی کی اتباع میں وہ بھی یہ قرار دیتے ہیں کہ نفس الامر میں شرعی ادلہ میں کوئی تعارض نہیں ہوتا بلکہ تعارض ہمارے عدم ِ علم کی وجہ سے ہمیں نظر آتا ہے اور اسی لیے جب بھی تعارض نظر آئے تو ترجیح یا جمع کی راہ اختیار کرنی چاہیے : ” لا یتحقق فی الشرعیۃ للتناقض ، و متی تعارضا فیرجح او یجمع ۔ معناہ تعارضا ظاھراً لجھلنا  لا فی نفس الامر ۔” ( تعارض ادلۂ شرعیہ میں متحقق نہیں ہوتا کیونکہ اس سے تناقص لازم آتا ہے ۔ پس جہاں تعارض ہو وہاں ترجیح کی راہ اختیار کی جائے گی یا جمع کی ۔ اس سے مراد یہ ہے کہ ہمارے عدم ِ علم کی وجہ سے بظاہر تعارض نظر آتا ہو  نہ کہ نفس امر میں تعارض ہو ۔ ) اس حد تک اتفاق کے بعد علامہ ابن الہمام امام سرخسی سے مختلف راے اختیار کرلیتے ہیں باوجود اس کے کہ بہت سے نتائج میں ان کا اتفاق ہوتا ہے ۔ اس اختلاف کا فہم ضروری ہے کیونکہ اسی کی وجہ سےحنفی فقہا کے طریق ِ کار کے متعلق غلط فہمیاں پیدا ہوئی ہیں ۔ 

اوپر ذکر کیا گیا کہ امام سرخسی تعارض کے لیے یہ ضروری قرار دیتے ہیں کہ دونوں ادلہ قوت میں برابر ہوں کیونکہ ان کی تحقیق کی رو سے حنفی مذہب یہ ہے کہ قوی اور ضعیف میں کوئی تعارض نہیں پایا جاتا ۔ علامہ ابن الہمام اس کے بالکل برعکس یہ قرار دیتے ہیں کہ تعارض کے لیے ادلہ کا قوت میں برابر ہونا ضروری نہیں ہے : ” و لا یشترط تساویھما قوۃً ۔” ( متعارض دلائل کے درمیان قوت کے لحاظ سے تساوی ضروری نہیں ہے ۔ ) یہیں سے اختلاف کی بنیاد پڑتی ہے کیونکہ امام سرخسی کے نزدیک ادلہ میں “تساوی اور تنافی “کو تعارض کے رکن کی حیثیت حاصل ہے جبکہ علامہ ابن الہمام کے نزدیک تساوی ضروری نہیں ہے بلکہ تعارض کے وجود کے لیے صرف تنافی ہی کافی ہے ۔ اس کا ایک نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ امام سرخسی کے نزدیک محکم اور مجمل کے درمیان اصطلاحی تعارض نہیں ہوسکتا جبکہ علامہ ابن الہمام کے نزدیک ان کے درمیان تعارض متحقق ہوسکتا ہے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کے باوجود دونوں کا اس پر اتفاق ہے کہ عمل محکم پر کیا جائے گا اور اس کی روشنی میں مجمل کی تاویل کی جائے گی ۔ 

تعارض کی ماہیت پر اختلاف کے بعد امام سرخسی اور علامہ ابن الہمام کے درمیان رفعِ تعارض کے طریق ِ کار پر بھی اختلاف نظر آتا ہے ۔ چنانچہ پچھلی فصل میں تفصیل سے ثابت کیا گیا کہ متعارض دلائل کے درمیان تساوی کی وجہ سے امام سرخسی پہلے ترجیح اور پھر جمع کی راہ اختیار کرتے ہیں اور ان دونوں کے عدم ِ امکان کی صورت میں ہی نسخ کی طرف جاتے ہیں اور نسخ کے عدم ِ امکان کی صورت میں تساقط الدلیلین کی بات کرتے ہیں ، جبکہ علامہ ابن الہمام کے نزدیک سب سے پہلے نسخ کی طرف جایا جائے گا اگر دونوں دلائل کی تاریخ کا علم ہو  اور نسخ کا امکان نہ ہو تو اس کے بعد ترجیح کی طرف  پھر جمع کی طرف اور پھر تساقط الدلیلین کی طرف جایا جائے گا: ” حکمہ : النسخ ان علم المتاخر ، و الا فالترجیح ، ثم الجمع ، و الا ترکا الی ما دونھما علی الترتیب ۔” (اس کا قانونی اثر نسخ ہے ، اگر معلوم ہو کہ کون سی دلیل متاخر ہے بصورت ِ دیگر ترجیح دی جائے گی ؛ پھر اس کے بعد جمع کی راہ اختیار کی جائے گی ؛ اور اس کا امکان بھی نہ ہو تو دونوں دلائل چھوڑ کر ان کے بعد کی دلیل کا رخ کیا جائے گا ۔ ) یہی بات مسلم الثبوت اور دیگر کتب ِمتاخرین میں بھی کہی گئی ہے اور اسی راے کو عصر حاضر میں بیشتر اہل ِ علم نے حنفی مذہب قرار دیا ہے حالانکہ اگر امام سرخسی کی تحقیق اور علامہ ابن الہمام کی راے میں اس اختلاف کو دور نہ کیا جاسکے تو حنفی مذہب وہی ہوگا جو امام سرخسی نے قرار دیا ہے ۔

امام سرخسی اور علامہ ابن الہمام کے اختلاف میں بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ علامہ ابن الہمام نے تعارض کے علاوہ ترجیح اور جمع کی اصطلاحات کے مفہوم میں ہی تبدیلی پیدا کردی ہے جس کی بنا پر اس مسئلے میں خلط ِ مبحث واقع ہوا ہے ۔ اس نکتے کی تفصیلی وضاحت ضروری ہے ۔

اصطلاحات کے مفہوم میں فرق اور خلط ِ مبحث

علامہ ابن الہمام نے ایک جانب ترجیح کو ترتیب میں نسخ سے موخر کردیا ہے ، حالانکہ پچھلی پوسٹس میں تفصیل سے واضح کیا گیا کہ حنفی مذہب کی رو سے ترجیح نسخ سے پہلے کا مرحلہ ہے ۔ اس کے علاہ انھوں نے ترجیح کی بحث میں نسخ غیر صریح کے مسائل بھی ذکر کیے ہیں اور یوں ان کے نزدیک ترجیح کا مفہوم بالکل ہی مختلف ہوجاتا ہے ۔ مثال کے طور پر ایک جانب حدیث ِ مبارک میں پیشاب سے خود کو بچانے کا حکم آیا ہے اور دوسری طرف عرنیین کے واقعے میں مذکور ہے کہ انھیں اونٹوں کا پیشاب پینے کا کہا گیا تھا ۔ علامہ ابن الہمام قرار دیتے ہیں کہ اس صورت میں حنفی مذہب نے ترجیح کی راہ اختیار کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ حلال جانوروں کا پیشاب بھی ناپاک ہوتا ہے اور ترجیح کی وجہ یہ ہے کہ دلیلِ حرمت کو دلیل ِ اباحت پر ترجیح حاصل ہوتی ہے ۔پچھلی پوسٹس میں مذکور ہوا کہ امام سرخسی کے نزدیک یہ ترجیح کی نہیں بلکہ غیر صریح نسخ کی مثال ہے۔یہ محض اصطلاح کا فرق نہیں ہے بلکہ اس کا اثر پورے طریق ِ کار پر پڑا ہے ۔

یہی مسئلہ جمع کی اصطلاح کے ساتھ بھی ہے ۔ علامہ ابن الہمام کے مطابق ترتیب میں جمع نسخ سے موخر ہے لیکن جمع کی جو مثالیں انھوں نے ذکر کی ہیں ان میں بیشتر وہی ہیں جو امام سرخسی نسخ سے پہلے یہ ثابت کرنے کے لیے دیتے ہیں کہ ان صورتوں میں اصطلاحی تعارض پایا ہی نہیں جاتا  اور اسی لیے نسخ کا سوال پیدا نہیں ہوتا ۔ مثال کے طور پر اوپر مذکور ہوا کہ حنفی فقہا یمین ِ غموس کو کسب ِ قلب قرار دیتے ہوئے اس پر اخروی مواخذے کے قائل تو ہیں لیکن اس پر کفارے کی صورت میں دنیوی مواخذے کو وہ نہیں مانتے اور انھوں نے سورۃ البقرۃ کی آیت میں مواخذے کو اخروی مواخذہ اور سورۃ المآئدۃ کی آیت میں اسے کفارے سے تعبیر کیا ہے ۔ امام سرخسی نے یہ مثال دے کر واضح کیا ہے کہ اس طرح جب دونوں آیات کا حکم ایک دوسرے سے ممیز ہوا تو ظاہری تعارض ختم ہوگیا اور نسخ کی طرف جانے کی ضرورت باقی نہیں رہی ۔ علامہ ابن الہمام بھی جمع کی اسی صورت کے قائل ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ان کے موقف کے مطابق جمع کو نسخ کے بعد آنا چاہیے جبکہ امام سرخسی اسے نسخ سے پہلے ذکر کرتے ہیں ۔ اگر علامہ ابن الہمام کی ترتیب پر عمل کیا جائے تو اس صورت میں جمع کی ضرورت ہی باقی نہیں رہتی کیونکہ یہ واضح طور پر معلوم ہے کہ سورۃ المآئدۃ کی آیت کا نزول سورۃ البقرۃ کی آیت کے بعد ہوا ہے ۔ گویا یہاں علامہ ابن الہمام خود اپنی مذکورہ ترتیب توڑ دیتے ہیں ۔ 

جمع کی اصطلاح میں ایک اور مسئلہ علامہ ابن الہمام نے یہ پیدا کردیا ہے کہ اس کی مثالیں ذکر کرتے ہوئے وہ بعض ایسی صورتیں بھی ذکر کردیتے ہیں جنھیں وہ پہلے ترجیح قرار دے چکے ہیں اور جو حنفی مذہب کی رو سے غیر صریح نسخ کی مثالیں ہیں ۔ مثال کے طور پر جب حنفی مذہب کی رو سے حرمت کی دلیل کو متاخر قرار دیتے ہوئے اسے اباحت کی دلیل کے لیے ناسخ مانا جاتا ہے تو علامہ ابن الہمام اسے یہاں جمع قرار دیتے ہیں اور اس کی توجیہ یہ کرتے ہیں کہ اس طرح دلیل ِ اباحت کو ابتدائی دور کے لیے اور دلیل ِ حرمت کو بعد کے دور کے لیے قرار دیا جاتا ہے ۔ “و قد یکون الجمع بین المتعارضین من قبل الزمان ، اما بصریح نقل المتاخر ۔۔۔ او حکماً کالمحرم علی المبیح اعتباراً لہ متاخراً۔” (کبھی متعارض دلائل کے درمیان جمع کی راہ وقت کے پہلو سے نکالی جاتی ہے کہ یا تو متاخر کے متعلق صریح نقل مل جائے ۔۔۔ اور یا قرینے کے ذریعے ایک کو متاخر مان لیا جاتا ہے ، جیسے حرمت کی دلیل کو اباحت کی دلیل سے متاخر فرض کرکے کر اس کا ناسخ مانا جاتا ہے ۔ )

علامہ ابن الہمام اس صورت کو کیوں جمع قرار دیتے ہیں ؟

اس کی ایک توجیہ ممکن ہے اور اس سے اختلاف کے اصل سبب پر بھی روشنی پڑتی ہے ۔ اوپر ذکر کیا گیا کہ جب دو اخبار آحاد میں تعارض واقع ہوتا ہے تو ان میں سے کسی ایک کو ترک کرنے کے دو اسباب ہوتے ہیں : یا تو اسے منسوخ قرار دیا جاتا ہے اور یا یہ مان لیا جاتا ہے کہ راوی سے فہم ، ضبط یا تعبیر میں غلطی ہوئی ہے ۔ اس موخر الذکر صورت میں مرجوح روایت کو راجح روایت کی نسبت ناقابل ِ اعتماد قرار دیا جاتا ہے ، جبکہ نسخ کی صورت میں منسوخ روایت کو ناسخ روایت ہی کی طرح قابلِ اعتماد مانا جاتا ہے لیکن ساتھ ہی قرار دیا جاتا ہے کہ اس میں مذکور حکم ابتدائی دور کے لیے تھا جسے بعد میں اٹھا لیا گیا ۔ اس لحاظ سے دیکھیں تو نسخ جمع کی ایک صورت بن جاتی ہے۔ 

تاہم جسے اصطلاح میں جمع کی صورت کہا جاتا ہے اس میں دونوں دلائل پر عمل کیا جاتا ہے اور کسی کو منسوخ نہیں قرار دیاجاتا ۔ نیز اس کے لیے یہ بھی ضروری ہوتا ہے کہ دونوں دلائل یکساں قوت کے حامل ہوں ، ورنہ اگر ایک دلیل قوی ہو اور دوسری ضعیف تو باوجود اس کے کہ ضعیف کی تاویل کے بعد اس پر بھی عمل کیا جاتا ہے اسے اصطلاحاً جمع نہیں کہا جاتا ۔ علامہ ابن الہمام نے خود اس کی وضاحت یوں کی ہے : ” و تاویل (اخبار) الآحاد (المعارضۃ ظاھر الکتاب)عند تقدیم الکتاب (علیھا) لیس منہ ( ای من الجمع بین المتعارضین ) بل استحسان حکماً للتقدیم (ای للکتاب علیھا منہ)۔” ( کتاب کے ظاہر کے ساتھ معارض اخبار آحاد پر کتاب کی تقدیم کے باوجود جب اخبار آحاد کی تاویل کی جاتی ہے تو یہ متعارض دلائل کے درمیان جمع کی صورت نہیں ہے بلکہ استحسان کی راہ ہے جو اخبار آحاد پر کتاب کی تقدیم کی وجہ سے اختیار کی جاتی ہے۔ 

نوٹ: قوسین میں مذکور عبارت التحریر کے شارح امیر بادشاہ البخاری کی ہے ۔

علامہ ابن الہمام کی راے کی تاویل

اب ہم یہ دیکھنے کی کوشش کریں گے کہ کیا علامہ ابن الہمام کی راے کی ایسی تاویل ممکن ہے کہ وہ امام سرخسی کی تحقیق کے مطابق ہوجائے ؟ 

حنفی مذہب کے مطابق خبر واحد کے ذریعے قرآن کا نسخ ناجائز ہے ۔ یہاں اس بات کی وضاحت ضروری محسوس ہوتی ہے کہ حنفیہ خبر واحد کے ذریعے قرآن کی تخصیص اور نسخ کو جائز نہیں سمجھتے  لیکن خبر مشہور کے ذریعے تخصیص اور نسخ دونوں کو جائز مانتے ہیں ۔ دوسری طرف شافعیہ خبر واحد کے ذریعے تخصیص کو جائز سمجھتے ہیں لیکن نسخ کے لیے سنت متواترہ کو بھی کافی نہیں مانتے ۔ ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ حنفیہ جسے خبر مشہور کہتے ہیں وہ شافعیہ کے نزدیک خبر واحد کی تعریف میں داخل ہے ۔ اسی طرح تخصیص اور نسخ کی اصطلاحات میں بھی ان مذاہب کے درمیان فرق پایا جاتا ہے ۔ اس لیے ہم نے ابتدا میں قرار دیا تھا کہ دونوں مذاہب کے اصول کو باہم مختلط کرنے سے مسائل پیدا ہوتے ہیں ۔

بہرحال چونکہ علامہ ابن الہمام بھی نسخ کے بارے میں حنفی مذہب ہی کے قائل ہیں اس لیے ماننا چاہیے کہ جب وہ کہتے ہیں کہ تعارض کی صورت میں سب سے پہلے نسخ کی طرف جایا جائے گا تو ان کی مراد تعارض کی وہ صورت ہے جب دلائل قوت میں متساوی ہوں ( جیسے دو آیات کا تعارض  یا دو اخبار آحاد کا تعارض ) ورنہ ان کے موقف میں تناقض لازم آتا ہے ۔ جب یہ مان لیا گیا تو اس صورت میں امام سرخسی بھی پہلے نسخ کی بات کرتے ہیں اور علامہ ابن الہمام بھی ۔ پس پہلے قدم پر ان کا جو اختلاف تھا وہ رفع ہوجاتا ہے ۔ 

اگر نسخ کی تصریح نہ ملے تو اس صورت میں کیا کیا جائے گا ؟ امام سرخسی کہتے ہیں کہ اس صورت میں دیگر قراین سے نسخ معلوم کیا جائے گا ، جبکہ علامہ ابن الہمام کہتے ہیں کہ اس صورت میں ترجیح کی راہ اختیار کی جائے گی ۔ اوپر واضح کیا گیا کہ ترجیح میں علامہ ابن الہمام وہ مثالیں بھی ذکر کرتے ہیں جنھیں امام سرخسی غیر صریح نسخ قرار دیتے ہیں ۔اسی طرح جسے علامہ ابن الہمام جمع قرار دیتے ہیں ان میں سے بھی بعض مثالیں ایسی ہیں جو امام سرخسی کے نزدیک غیر صریح نسخ کی ہیں ۔ 

اس تاویل کی رو سے علامہ ابن الہمام کی بات وہی قرار پاتی ہے جو امام سرخسی نے کہی ہے لیکن اس تاویل کو ماننے کی راہ میں دو رکاوٹیں ہیں : 

اولاً : علامہ ابن الہمام تعارض کے لیے دلائل کے درمیان تساوی کی شرط نہیں مانتے اور اس تاویل کی رو سے فرض کرنا پڑتا ہے کہ یہ تعارض کی وہ صورت ہے جب دلائل قوت میں متساوی ہوں ؛ 

ثانیاً : اگر اس پہلی رکاوٹ کو نظر انداز بھی کیا جائے تو دوسرا سنگین مسئلہ یہ سامنے آتا ہے کہ اس تاویل کی رو سے ماننا پڑتا ہے کہ جسے علامہ ابن الہمام ترجیح اور جمع قرار دیتے ہیں وہ ہی چیز ہے جسے امام سرخسی قراین سے نسخ کا ثبوت کہتے ہیں  جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ترجیح اور جمع کے ذیل میں علامہ ابن الہمام بہت سی وہ مثالیں بھی ذکر کرتے ہیں جنھیں امام سرخسی نسخ سے قبل ظاہری تعارض رفع کرنے کے ضمن میں ذکر کرتے ہیں ۔ اسی بات کو اوپر ہم نے خلط ِمبحث سے تعبیر کیا تھا ۔ گویا علامہ ابن الہمام ترجیح اور جمع میں ایک جانب بعض وہ صورتیں ذکر کرتے ہیں جنھیں امام سرخسی نسخ غیر صریح قرار دیتے ہیں اور دوسری جانب وہ ان میں بعض ایسی صورتیں بھی ذکر کرتے ہیں جنھیں امام سرخسی نسخ سے قبل ترجیح اور جمع کی بحث میں بیان کرتے ہیں ۔ 

پس حقیقت یہ ہے کہ علامہ ابن الہمام نے ترجیح اور جمع کے مفاہیم میں تبدیلی لاکر اور تعارض سے نکلنے کی راہیں بیان کرنے میں ترتیب بدل کر حنفی مذہب کی جو توجیہ ذکر کی ہے وہ امام سرخسی کی تحقیق سے بالکل ہی مختلف ہے ۔ حنفی مذہب ، جیسا کہ امام سرخسی نے اصول میں نظری طور پر قرار دیا ہے اور المبسوط میں عملاًدکھایا ہے یہ ہے کہ پہلے قوی اور ضعیف کا تعین کرکے قوی کی روشنی میں ضعیف کی تاویل کی جائے اور پھر دونوں پر عمل کیا جائے ؛ تاہم اگر دونوں قوت میں متساوی ہوں تو ان کے درمیان جمع کی راہ نکال کر ان کے درمیان ظاہری تعارض رفع کیا جائے اور دونوں پر عمل کیا جائے اگر یہ ممکن نہ ہو تو پہلے ناسخ اور منسوخ کا تعین کرکے ایک دلیل پر عمل کیا جائے اور دوسری کو چھوڑ دیا جائے ؛ اور یہ بھی ممکن نہ ہو تو مجبوراً دونوں دلیلوں کو چھوڑ دیا جائے ۔ یہی ترتیب عین فطری اور عقلی ہے ۔ علامہ ابن الہمام نے دلائل کے درمیان تساوی کی شرط ختم کرکے اور پھر نسخ کو ترجیح اور جمع پر مقدم کرکے اس فطری ترتیب کو بالکل ہی تبدیل کرکے رکھ دیا۔ اگلی پوسٹس میں ہم تفصیل سے دکھائیں گے کہ امام سرخسی نے اپنی عظیم الشان کتاب المبسوط میں اس طریق ِ کار پر کس طرح عمل کرکے دکھایا ہے ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں