ٹیلیفون  پر ہیلو کہنے کا حکم

سوال :  آج کل یہ سوال اکثر لوگوں کے ذہنوں  میں گردش کررہاہے کہ  فون  پر لفظ “Hello” کہنے کی شرعی حیثیت کیاہے؟ کیونکہ آج کل کثرت سے یہ بات  انٹرنیٹ اور موبائل   پیغامات  کے ذریعہ  پھیل رہی ہے کہ ” ہیلو ” کہنا جائز نہیں ہے،  ان  پیغامات  میں یہ کہا جارہاہے کہ یہ لفظ  “Hello” ” “Hell سے نکلا ہے  اور “Hell انگریزی  زبان میں جہنم کو کہتے ہیں ا س لیے   “Hello” کا   مطلب  ہے جہنمی ۔

لہذا اس سوال کے جواب سے پہلے یہ تحقیق ضروری ہے کہ اس لفظ کے لغوی معنیٰ کیاہیں؟ اس کا مادہ اشتقاق  کیاہے  ؟ اورا س کا استعمال  کن کن مواقع  پر کن معنی ٰ میں ہوتا ہے ؟ تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ لفظ  ” ہیلو” محض ایک  تسلیماتی  لفظ   ( Greeting)  ہے ،اورا سی حیثیت  سے آج کل معاشرے میں  رائج  ہے، اگر چہ دیگر  معانی  میں بھی اس کا استعمال  ہے، مثلا  حیرانگی  یا غصہ  کے اظہار کے لیے  یا کسی کی توجہ حاصل کرنے کے لیے بھی  اس کاا ستعمال انگریزی  زبان میں عام ہے ،ا سی طرح  گفتگو کی ابتداء  میں  حال  چال پوچھنے  کی غرض  سے بھی اس کا استعمال  کثرت سے ہوتا ہے ، لیکن ان میں کسی  جگہ بھی  اس کا استعمال  دعائیہ کلمہ کے طور پر نہیں ہوتااور نہ ہی اس کا  مطلب  ان  جگہوں  میں سے کسی بھی جگہ ” جہنمی  ” لیا  جاتا ہے ، چنانچہ  بنیادی  طور پر  اگر دیکھاجائے  تو یہ لفظ محض  ایک تسلیماتی  لفظ ہے  کوئی بددعائیہ  کلمہ نہیں  ہے  ، مشہور انگریزی لغات  مثلا ” آکسفورڈ ڈکشنری  ، چیمبر ڈکشنری  ، کیمبرج ڈکشنری اور مریم  وپیسٹر ڈکشنری  میں اس لفظ  سے متعلق یہی تفصیلات درج ہیں  جو ابھی  بیان  کی گئی ہیں اور کم وبیش یہی تفصیلات  دیگر انگریزی  لغت کی کتابوں میں درج ہیں ۔ ( ملاحظہ  فرمائیں  : آکسفورڈ  ڈکشنری، مریم  وپسٹرڈکشنری، کیمبرج ڈکشنری )

لفظ “Hello” کی ابتداء  سے متعلق بہت سے لوگوں کی رائے یہ ہے کہ اس لفظ  کا موجد مشہور سائنسدان تھومس  الواایڈیسن    (Thomas Alva  Edision ) ہے،ا ور اس نے یہ لفظ  فون کال  کے زروع میں ابتدائی تسلیمات   ( Greeting) کلمات  کے طور پر متعارف  کروایا  جبکہ  دوسری  طرف ٹیلی  فون  کے موجد  گرہم بیل  کا اصرار   یہ تھا کہ ابتدائی  کلمہ “ahoy”  ہونا چاہیے  یہ ساری تفصیل ویلیم  گرمز  ” WILLIAM GRIMES “   نےنیو یارک  ٹائمنز میں  5 مارچ 1992 میں اپنے شائع  ہونے والے  مضمون   The great  Hello  my stery Is solved   میں بیان  ہے بعض حضرات کا کہنا ہے کہ تھومس  ایلوایڈسن  ا س کو موجد نہیں  ہےکیسا  کہ مشہور کتاب  کے مصنف  نے اپنے ہی ایک مضمون  میں  بیان کیا ہے ۔

لیکن مطالعہ سے  جو بات  سامنے آئی ہے  اس سے ایسا معلوم ہوتا ہے  وہ اگر چہ  تھومسمایڈیسن  اس کا موجد نہ ہو مگر  کم سے کم فون  پر اس کو  متعارف کروانے والا وہی ہے  بہر حال  اس کے بعد سے  اس لفظ کوکوفی شہرت ملی  اور اب یہ لفظ  بلا کسی  مذہب اورقوم  کی تخصیص  کے تھوڑے  بہت لہجے  کے فرق کے ساتھ  دنیا  بھر میں  تسلیماتی  لفظ کے طور پر مشہور ہے خصوصا  ٹیلیفون  کال پر ابتدئی  کلمات کے طور  اس  کی شہرت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں  ہے ۔

خلاصہ اس س ساری بحث کا  یہ ہوا کہ لفظ   Hello محض ایک تسلیماتی لفظ  ہےا ور اسی میں اس کا استعمال  شائع ہے۔ا س کے معنی  جہنمی  کسی بھی  طور   پر درست نہیں  ہےاس  لیے فی  نفسہ  فون پر لفظ  Hello کا استعمال  جائز ہے   ، گناہ نہیں  ہے ۔ البتہ  بحیثیت مسلمان  ہمارے شایان شان  یہ لفظ Hello  کے بجائے السلام  علیکم  کہاجائے  اور سی  کی ترویج  کی جائے تو ہر لحاظ  سے بہتر ہے  ،ا س لفظ  کو ادا کرنے سے  سنت پرعمل کا ثواب  بھی ملے گا  اور نیز یہ لفظ  دوسرےمسلمان  کے حق میں  ایک بہترین دعا بھی ہے کہ اللہ تم  پر سلامتی نازل کرے ۔ نیز حدیث  میں آپ ﷺ  نے فرمایا  کہ اپنے درمیان  سلام کو  پھیلاؤ اسی طرح ایک  اور حدیث میں  حضرت براء  بن عازب ؒ فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ نے  ہمیں سات  چیزوں کا حکم دیااور  سات چیزوں سے منع فرمایا ،ا ن سات چیزوں  میں سے جن کا حکم آپ ﷺ نے فرمایا   ایک یہ تھی  کہ سلام کو   پھیلاؤ ، ایک حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا کہ سلام ، کلام  سے پہلے ہے ، یعنی سلام  کرو پھر کلام  کرو، اسی طرح ایک حدیث  میں  آپ ﷺ نے فرمایا  کہ جب تم  میں سے کوئی  اپنے بھائی  سے ملےتو  اسے چاہیے کہ اس  ( بھائی )  کو سلام رے  ،ا یک اور موقع پرآپ ﷺ سے پوچھاگیا  کہ اسلام کا  بہترین  عمل کونسا ہے  ؟ تو آپ ﷺ نے جواب  میں فرمایا  کہ کھانا کھلاؤ اور سلام  کرو ایسے شخص کو  بھی جس کو  تم جانتے ہو اور ایسے شخص کو بھی جس کو  تم نہیں جانتے  ، نیز صحابہ  کرام سے تمام  سنتوں  کی طرح  اس سنت   پر بھی عمل  کرنے کا خاص اہتمام  فرمانا ثابت ہے چنانچہ  حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ  کے بارے  میں آتا ہے  کہ وہ صرف  اسی ارادے  سےبازار تشریف لے جاتے  تاکہ جو ملے اسے سلام  کریں ۔

لہذا اگر  چہ فون  پر Hello  کہنا شرعاً جائز ہے ،لیکن  السلام  علیکم  جیسی  عظیم  سنت ، نیکی اور دعا کو چھوڑ  کر ایک ایسے لفظ  کو اپنے  معمولات میں  شامل  کرلینا  جس کا کوئی  اخروی فائدہ  نہ ہو ایک مسلمان  کی شان  کے خلاف ہے اور بحیثیت  مسلمان  حضوراقدس ﷺ  کی تعلیمات ، صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین  کا عمل اور شعائر اسلام  ہر لحاظ  سے ہمارے  لیے مقدم اور محترم  ہیں اور حقیقت  یہ ہے کہ کلمہ  اللہ رب العزت کی طرف سے  بڑا  انعام  ہے جو امت  محمدیہ کو دیاگیاہے  کہ محض  ایک تعارفی  اور کلام  کی ابتداء  کو بھی نہ صرف یہ کہ عبادت  بنادیا بلکہ مستقل  ایک ایسی دعا بنادیا  جس  کا ہر انسان ہر وقت محتاج ہے  ، لہذا بہترین  بات یہ ہے کہ  Hello کی جگہ السلام علیکم  کہنے کی عادت  ڈالی جائے  اور اس کا جواب وعلیکم السلام  کہہ دیاجائے  ۔

 کتبہ محمد معاذ اشرف علی  عفی عنہ  

دارالافتاء جامعہ دارالعلوم  کرچی

 5، رجب  1435

عربی حوالہ جات اور مکمل فتویٰ پی ڈی ایف فائل میں حاصل کرنے کے لیے دیے گئے لنک پر کلک کریں :

https://www.facebook.com/groups/497276240641626/522078461494737/

اپنا تبصرہ بھیجیں