مسجد کے آداب اور ہماری کوتاہیاں

مسجد کے نچلے یا بالائی حصہ میں بیت الخلاء وغیرہ بنانا:
آج کل مساجد میں ایک اہم مسئلہ یہ پیش آتا ہے کہ جگہ کی تنگی کی وجہ سے مسجد کے نچلے یا بالائی حصہ میں بیت الخلاء ، وضو خانہ،امام یاموذن کا رہائشی مکان، مدرسہ ، لائبریری وغیرہ بنا دیے جاتے ہیں۔ اس کی شرعا دو صورتیں ہیں:
 ۱۔     مسجدکی تعمیرات مکمل ہوچکی ہوں:
 مسجد مکمل تعمیرہوجانے کے بعد مسجد کے نیچے یا بالائی حصہ میں ذکر کردہ چیزوں میںسے کوئی چیز بنانا بالکل جائز نہیں ہے۔
۲۔     مسجدکی تعمیر مکمل ہونے سے پہلے :
مسجد بننے سے پہلے اگر انتظامیہ یہ نیت کردے کہ مسجد کے نچلے حصہ میں مسجد کی دکانیں، گودام، یا رفاہِ عامہ کی چیزیں،جیسے: مدرسہ، لائبریری، اسپتال ہوگا اور بالائی حصہ پر مسجد ہوگی تو بوقت ضرورت اس کی گنجائش معلوم ہوتی ہے بشرطیکہ مسجد کا یہ نچلا حصہ کسی شخص کی ذاتی ملکیت نہ ہو، پھر خواہ وہ نچلا حصہ مسجد یا مصالح مسجد کے لیے وقف ہو یا رفاہ عامہ پر وقف ہو، تاہم وقف ہو ،کسی شخص کی ذاتی ملکیت نہ ہو۔
اس مسئلہ کی قدرے تفصیل یہ ہے کہ مسجد اصل میں تحت الثریٰ سے آسمان تک ہوتی ہے البتہ ضرورت کے وقت مسجد بنانے سے پہلے مسجد کے نچلے حصہ کو یا مسجد کے بالائی حصہ کو مسجد سے مستثنی کرنے کی فقہاء کرام نے اجازت دی ہے لیکن اس کے لیے شرط یہ بیان فرمائی ہے کہ مسجد کے نچلے یا بالائی حصہ سے جو کہ مسجد سے مستثنیٰ کیا گیا ہے کسی بندہ کا حق متعلق نہیں رہنا چاہیے، حق العبد اس سے بالکل منقطع ہوجانا ضروری ہے جس کی وضاحت فقہاء نے یہ بیان فرمائی ہے کہ وہ نچلا یا بالائی حصہ مسجد پر وقف ہو، یا مسجدپر وقف نہ ہوتومصالحِ مسجد پر وقف ہو۔ علامہ رافعیؒ نے مصالح مسجد کی تشریح فرماتے ہوئے اس کے حکم میں رفاہ عامہ کی چیزیں بھی داخل کی ہیں اور ان کے لیے نچلے یا بالائی حصہ کو  وقف کرنے کو بھی صحیح قرار دیا ہے کیونکہ رفاہ عامہ کی چیزوں پر وقف کرنے سے بھی اس نچلے اور بالائی موقوف حصہ سے شخصی ملکیت اوربندہ کا حق باقی نہیں رہتا اور یہی شرط تھی، لہٰذا ضرورت کے وقت مسجد بنانے سے پہلے مسجد کے نیجے یا اوپر والے حصہ میں لائبریری، مدرسہ اور اسپتال وغیرہ بنانے کی شرعاً گنجائش ہے۔
البتہ کسی حصہ ارض کو برائے مسجد وقف کرنے سے پہلے اس کے نچلے یا بالائی حصہ کو مسجد سے مستثنیٰ کرنے کے بعد مستثنیٰ حصہ میں جو کچھ بنایا جائے اس میں یہ بات ملحوظ رہے کہ جو رفاہی چیزیں بذات خود احترام مسجد کے خلاف ہیں جیسے بیت الخلاء، پیشاب خانہ اور غسل خانہ وغیرہ تو مسجد کے اوپر یا نچلے حصہ میں مستقل طور پر انہیں نہ بنایا جائے ہاں ضمناً اور تبعاً بنانے میں مضائقہ نہیں ہے، جیسے:امام کا رہائشی مکان یا مدرسہ یا اسپتال بنایا جائے ان میں ضمناً یہ چیزیں بھی بن جائیںتو حرج نہیں۔ جو چیزیں بذات خود احترام مسجد کے منافی نہیں ہیں،جیسے: لائبریری، مدرسہ وغیرہ،انہیں مستقلاً بنانا بھی درست ہے۔        (شامی)  
مملوکہ زمین پر مسجد بنانا:
جو زمین کسی مسلمان یا مسلمان ملک کے کافر شہری کی ملکیت ہو اس پر مالک کی اجازت کے بغیر مسجد بنانا حرام ہے۔ ایسی مسجد، شرعی مسجد بنتی ہی نہیں۔ اگر صریح اجازت کے بغیر مسجد بنا لی گئی تو اس کو گرا کر زمین خالی کرکے مالک کو واپس کرنا واجب ہے۔      (اسلام کا نظام اراضی : ۱۵۸)
گورنمنٹ اراضی پر مسجد بنانا:
اگر مسلمانوں نے غفلت سے یا کسی مجبوری کی وجہ سے حکومت کی منظوری کے بغیر رفاہی پلاٹ پر مسجد بنالی اور پھر حکومت سے اجازت حاصل کرلی تو یہ مسجد، شرعی مسجد ہے۔ اور اگر حکومت سے اجازت حاصل نہ کی لیکن حکومت کے ذمہ داران نے منع نہیں کیا تو ذمہ دار افسران کا سکوت بھی اس معاملہ میں اجازت سمجھا جائے گا اور ایسی مسجد ، مسجد شرعی بن جائے گی ۔
    (اسلام کا نظام اراضی: ۱۵۸)
مسجد انتظامیہ کے اوصاف:
شریعت نے مسجد کمیٹی کے ممبران کے لیے بھی خاص اوصاف اور احکام وضع کیے ہیں۔ جن کا لحاظ رکھنا ظاہر ہے کہ ضروری ہے۔ ان احکام سے غفلت مسجد کے حوالے سے بہت سے مسائل کو جنم دے رہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مساجد کی انتظامیہ اپنے اوصاف و اخلاق ان اصولوں کے مطابق بنالیں تاکہ ایسے مسائل کا ازالہ ہو سکے۔
ذیل میں مسجد کمیٹی کے ارکان کے اوصاف ذکر کیے جاتے ہیں:
۱۔     وہ مسلمان ہو۔ غیر مسلم ،مسجد انتظامیہ کا، رکن نہیں بن سکتا۔
۲۔     رکن عاقل بالغ ہونے کے ساتھ ساتھ متقی اور نیک ہونا چاہیے۔ کم سے کم نماز کا پابند ہونا ضروری ہے ۔
٭    لہٰذا جو شخص نماز کا پابند نہ ہو اس کو اہل نمازیوں کی موجودگی میں انتظامیہ کا رکن بنانا درست نہیں۔
٭     اسی طرح جس شخص کا فسق (کبیرہ گناہ کا بار بار ارتکاب) عام لوگوں کے علم میں ہو وہ بھی مسجد انتظامیہ کا رکن بننے کا اہل نہیں۔
٭     امانت دار ہونا بھی مسجد انتظامیہ کا رکن بننے کی شرط ہے لہٰذا جو شخص امانت دار نہ ہو، چور، خائن اور فضول خرچ ہو اس کو مسجد انتظامیہ کا رکن بننا صحیح نہیں۔
٭     جو رکن، ذمہ داری لینے کے بعد مذکورہ ناجائز باتوں کا مرتکب قرار پائے اس کو چاہیے کہ وہ خود اس ذمہ داری سے علیحدہ ہوجائے، ورنہ اہل محلہ اس کو علیحدہ کرسکتے ہیں۔
۳۔     وہ خود رکنیت کا طالب نہ ہو، اہل محلہ نے رکن بنایا ہو۔ لہٰذا جو شخص مسجد انتظامیہ کا رکن بننے کا خود طالب ہو اس کو مسجد انتظامیہ کا رکن بنانا بہتر نہیں۔(بعض خاص صورتیں اس سے مستثنی ہیں)
۴۔ وہ مسجد کے امور کی دیکھ بھال اور مصالح مسجد کی رعایت رکھنے کا اہل بھی ہو، چاہے وہ خود یہ کام کرے یا اپنے کسی نائب کے ذریعے کرائے۔
 ’’ولا یولی إلا امین قادر بنفسہ او بنائبہ… وکذ تولیۃ العاجز… من طلب التولیۃ علی الوقف لا یعطی لہ‘‘
                 (شامی: ۶/۵۸۴)
مسجد کمیٹی کی ذمہ داریاں:
مسجد کی دیکھ بھال سے متعلقہ امور یہ ہیں:
۱۔     مسجد میں حرام مال نہ لگنے دیا جائے۔
۲۔     آمدنی اور اخراجات کا حساب کتاب رکھا جائے۔
۳۔     آمدنی اور اخراجات میں غبن نہ کیا جائے۔
۴۔     مسجد میں غیر شرعی کام نہ ہونے دیا جائے۔
۵۔     امام، مؤذن کی ضرورتوںاور نمازیوں  کی سہولتوں کا خیال رکھا جائے۔ ان کی جائز اور معقول شکایات کا حتی الامکان ازالہ کیا جائے!
۶۔     مسجد کی صفائی کا اہتمام کیا جائے۔
۷۔     مسجد کی بے حرمتی یا نمازیوں کی تکلیف کا باعث بننے والی تمام باتوں کا سدباب کیا جائے۔
۸۔     مسجد کی تعمیر و آرائش میں شرعی حدود کا لحاظ رکھا جائے۔
 یا اﷲ! ان ٹوٹی پھوٹی باتوں کو اپنی بارگاہ عالی میں قبول فرما! اس کتابچے کو عوام الناس کے لیے فائدہ مند بنا! اور اس ناچیز، اس کے لیے والدین اور اساتذہ و مشایخ کے لیے اس کتابچے کو ذخیرۂ آخرت اور ذریعہ نجات بنا!    
آمین

اپنا تبصرہ بھیجیں