تجارت دین سے جد ا نہیں

ہمارا المیہ:
تاریخ کے اوراق میں یہ بات محفوظ ہے کہ یہود و نصاریٰ کی ہلاکت و بربادی اور ان کے دین میں بگاڑ اور تبدیلی پیدا ہونے کی ایک وجہ یہ بنی تھی کہ انہوں نے دین اور دنیا کو دو الگ الگ چیزیں سمجھنا شروع کردیا تھا۔ وہ خود کو گرجا گھروں اور کلیسائوں کی حد تک مذہب کا پابند سمجھتے تھے اور اس سے باہر کے تمام کاروبار اور امور زندگی میں خود کو آزاد تصور کرتے تھے۔
موجودہ دور کی اصطلاح میںیوں کہہ سکتے ہیں کہ وہ سیکولر (Secular)ہوگئے تھے۔ وہ مذہب کو اپنا نجی اور ذاتی مسئلہ قرار دیتے اور دنیوی معاملات میں زمانے کے طور طریقوں پر چلتے۔ آسمانی صحیفوں میں سود کو حرام قرار دیا گیا تھا، اس کے باوجود انہوں نے اپنے کاروبار میں سودی معاملات کو داخل کر لیا اور مال و دولت جمع کرنے کے اس قدر حریص ہوگئے کہ اس کے لیے انہوں نے جائز ناجائز کسی چیز کی پرواہ نہیں کی۔ المیہ یہ ہے کہ آج مسلمانوں کے بازار Markets) (بھی تقریباً اسی خطرناک صورت حال سے دوچار ہیں۔ ہم کھلی آنکھوں دیکھ رہے ہیں کہ لوگ اپنے معاملات(Bussiness) میں شریعت کے احکام کو یکسر نظر انداز کر رہے ہیں اور زیادہ سے زیادہ دولت جمع کرنے کی حرص میں حلال و حرام کی تمیز ختم ہوتی جارہی ہے۔ یہ بالکل وہ ہی صورت حال ہے جس کی طرف ایک حدیث مبارکہ میں اشارہ کیا گیا ہے:
’’میری امت پر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ آدمی کو یہ پرواہ نہ ہوگی کہ وہ جو کما رہا ہے وہ حلال ہے یا حرام؟‘‘
(الترغیب و الترھیب : ۲/۳۴۷)
تجارت اور اُسوۂ صحابہv:
حالانکہ قرآن و حدیث میں جہاں عبادت کے احکام ہیں وہاں تجارت  (Trade and Bussiness)اور صنعت و حرفت (Industry)کے احکام اس سے کئی گنا زیادہ ہیں۔ خود نبی کریم w نے تجارت کی ہے ۔ آپw نے مضاربت کا کاروبار کیا ہے اور شراکت ( Ship Partner) بھی کی ہے۔ صحابہ کرام کے حالات زندگی سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کسی نہ کسی پیشے سے وابستہ تھے۔ مہاجر صحابہ کرام کی دلچسپی تجارت میں تھی، جبکہ انصار مدینہ کے باغات اور کھیت ہوا کرتے تھے۔ بعض صحابہ کرام صنعت و حرفت کے پیشے سے بھی منسلک تھے۔ اس کے باوجود صحابہ yنے کبھی تجارت کو دین سے الگ نہیں سمجھا، بلکہ وہ دونوں کوساتھ لے کر چلتے تھے۔ دین کو وہ مقصد سمجھتے تھے اور کاروبار کو صرف وسیلہ۔
علامہ قرطبی kنے ایک روایت نقل کی ہے کہ نبی کریم w کے عہد مبارک میں دو صحابی تھے۔ ایک تجارت کرتے تھے، دوسرے لوہار کا کام کرتے تھے اور تلواریں بنا کر بیچا کرتے تھے۔ پہلے صحابی کی تجارت کا یہ حال تھا کہ اگر سودا تولنے کے وقت اذان کی آواز کان میں پڑجاتی تو وہیں ترازو کو چھوڑ کر نماز کے لیے چل پڑتے۔ دوسرے صحابی کا دستور یہ تھا کہ گرم لوہے پر ہتھوڑے کی ضرب لگا رہے ہیں اور کان میں اذان کی آواز آگئی تو اگر ہتھوڑا کندھے پر اٹھائے ہوئے ہیں تو وہیں کندھے کے پیچھے ہتھوڑا ڈال کر نماز کے لیے چل دیتے تھے۔ اٹھائے ہوئے ہتھوڑے کی ضرب سے کام لینا بھی گوارا نہ ہوتا تھا۔
(معارف القرآن بحوالہ قرطبی: ۶/۴۳۰)
حضرت عبداﷲ بن مسعودb سے منقول ہے کہ انہوں نے صحابہ کرام کی ایک جماعت کو دیکھا جو بازار میں خرید و فروخت کر رہے تھے۔ جیسے ہی اذان کی آواز سنائی دی ان سب نے اپنے اپنے معاملات وہیں روک دیے اور نماز کے لیے چل پڑے۔
(تفسیر ابن کثیر: ۴/۵۶۰)
حضرت عبداﷲ بن عمرb سے منقول ہے کہ وہ ایک بار بازار میں بیٹھے تھے۔ دیکھا کہ جیسے ہی نماز کا وقت ہوا سب لوگ اپنی اپنی دکانیں بند کرکے مسجد جانے لگے۔    (ایضا)
حضرت عبداﷲ بن عباسb سے منقول ہے کہ در حقیقت صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم تجارت پیشہ تھے۔ لیکن تجارت اور کوئی بھی نفع مند کام ان کو اﷲ کی یاد اور اس کے احکام سے غافل نہ کرتا تھا۔
( تفسیر روح المعانی: ۱۸/۵۰۴)
حضرت ابوہریرہ bسے روایت ہے کہ صحابہ کرام کی حالت یہ تھی کہ وہ محنت مزدوری اورکاروبار کے سلسلے میں سفر کی حالت میں ہوتے تھے لیکن ان کا کاروبار انہیں اﷲ کے احکام کی تعمیل اور نماز وغیرہ سے نہ روکتا تھا۔         (ایضاً : ۱۸/۵۰۳)
ان تمام روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ مبارک زمانوں میں تجارت اور دین کو الگ الگ سمجھنے کی کوئی سوچ نہیں تھی۔ بلکہ صحابہ  کرام vجہاں ایک طرف عبادت گزار اور دین کے پابند ہوتے تھے وہیں دوسری طرف وہ بڑے تاجر بھی ہوتے تھے۔ وہ دونوں چیزوں کے جامع تھے۔ ان کی تجارت انہیں دین سے بیگانہ نہ کرتی تھی۔
قرآن میں صحابہ کرام vکی
توصیف:
صحابہ کرام کے اسی وصف کو اﷲ جل شانہ قرآن پاک میں یوں بیان فرماتے ہیں:
’’وہ ایسے لوگ ہیں جن کو اﷲ کی یاد (اور اس کے حکموں کی تعمیل) سے اور نماز پڑھنے سے اور زکوٰۃ دینے سے نہ تجارت غفلت میں ڈالتی ہے اور نہ کوئی سودا۔‘‘ (النور: آیت ۳۷)
اس آیت سے مفسرین نے یہ فوائد اخذ کیے ہیں:
1… صحابہ کرام زیادہ تر تجارت اور صنعت و حرفت کے پیشے سے وابستہ تھے۔ کیونکہ صحابہ کرامv کی جو خوبی اس آیت میں بیان ہوئی ہے وہ اسی وقت درست ہوسکتی ہے جب اکثر صحابہ کرام تجارت اور سوداگری کے پیشے سے وابستہ ہوں، ورنہ ان کی یہ خوبی بیان کرنا بے کار اور فضول ہوگا۔
2… اس آیت میںلفظ رِجَالٌ سے یہ مسئلہ اخذ ہوتا ہے کہ مسجدوں میں جانے اور کاروبار کرنے کے احکام مردوں کے لیے ہیں۔ عورتوں کے لیے ان کے گھر مسجد کا ثواب رکھتے ہیں اور کاروبار کرنا ان کے ذمہ واجب نہیں۔ بلکہ ان کے نان نفقہ کے ذمہ دار مرد ہیں۔ شادی سے پہلے والد اور شادی کے بعد شوہر۔
3… ایک اچھا مسلمان تاجر وہ ہے جو تجارت اور بیوپار میں لگ کر اﷲ کے احکام سے غافل نہ ہو۔ وہ اپنے کاروبار کو اﷲ کے دین کے تابع رکھے۔ وہ دین اور دنیا کو الگ الگ چیزیں نہ سمجھے، بلکہ زندگی کے ان دونوں شعبوں میں وہ نبی کریم w کے بتائے ہوئے طریقوں کا پابند اور ان پر عمل پیرا ہو۔ صحابہ کرام کی یہی شان تھی اور ہر نیک اور سچے مومن کی یہی صفت ہونی چاہیے!
ایک بڑی فضیلت:
ایسے تاجروں کی احادیث میں بڑی فضیلت وارد ہوئی ہے۔
چنانچہ حدیث نبوی w ہے:
’’قیامت کی سخت گرمی میں جب اﷲ جل شانہ اگلی پچھلی سب قوموں کو جمع کردیں گی تو ایک فرشتہ بلند آواز سے پکارے گا اس کی آواز تمام مخلوقات سنیں گی وہ کہہ رہا ہوگا: ’’ عنقریب معلوم ہوجائے گا کہ کون اﷲ تعالیٰ کے لطف و کرم کا زیادہ حق دار ہے؟ پھر وہ کہے گا: ’’وہ لوگ کھڑے ہوجائیں جنہیں اﷲ کی یاد سے نہ تو تجارت غفلت میں ڈالتی تھی اور نہ سودا گری۔ تو ایسے ایماندار تاجر کھڑے ہوجائیں گے اور وہ بہت تھوڑے ہوں گے۔ اﷲ جل شانہ پہلے انہیں بغیر حساب و کتاب کے جنت میں داخل فرما دیں گے اس کے بعد تمام مخلوقات کا حساب لیا جائے گا۔
(تفسیر ابن کثیر: ۴/۵۶۱ طبع قدیمی)
حرام کاروبار کے نقصانات:
تجارت کو دین سے الگ سمجھنے کا ایک بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ معاشرے سے حلال حرام کی تمیز اٹھ جاتی ہے۔
حلال حرام کی تمیز اٹھ جانے کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ معاشرے میں حرام اور گندے مال کی بہتات ہوجاتی ہے۔ ظاہر ہے  جس معاشرے میں حرام اور ناجائز مال کی کثرت ہوجائے وہ معاشرہ قحط سالی، بے روزگاری، مہنگائی، حکومتی نا اہلی، خانہ جنگی، موذی امراض اور حادثات کا شکار ہوجاتا ہے۔ پھر نیک لوگ دُعائیں کریں تب بھی دُعائیں قبول نہیں ہوتیں۔
ہماری ضرورت:
ایسے حالات میں علماء اور تاجر برادری کامل بیٹھنا اور مارکیٹوں سے ناجائز معاملات کے خاتمہ کے لیے مل جل کر کوششیں کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اس ضرورت کی تکمیل اسی وقت ہوسکتی ہے جب تاجر اورصنعت کار حضرات اپنے معاملات کی تفصیل سے علمائے کرام کو آگاہ کریں اور علمائے کرام دی گئی معلومات کا شرعی جائزہ لے کر ان کو درست راہ نمائی فراہم کریں۔ تاجر حضرات کو تجارت کے احکام کی واقف کاری دی جائے۔ جو معاملات پیچیدہ ہوں ان پر غوروخوض کرکے ان کا متبادل حل تلاش کیا جائے ۔ تاجر برادری کو مستند علمائے کرام تک رسائی فراہم کی جائے اور ان کے معاملات کو ترجیحی بنیادوں پر نمٹانے کی کوشش کی جائے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں