اطلبوا العلم ولو في الصين

دارالعلوم کراچی فتویٰ نمبر:96

  • اطلبوا العلم کے متعلق محدثین  میں اختلاف  ہے ایک کثیر تعداد  محدثین نے اسے موضوع قرار  دیاہے اور بعض محدثین نے اسے حدیث ضعیف  کہا ہے  اور بعض  محدثین نے کثرت طرق کی وجہ سے اس  حدیث کو  حسن لغیرہ  قرار دیاہے ۔

فی القدیر

وفی شعب الایمان

وفی مسند البراز

منسلک پی ڈی ایف فائل۔۔۔۔

2، 3) اگر کوئی شخص درج بالا تفصیل  کے ساتھ یعنی  اس کے سخت  ضعیف  ہونے  کی صراحت کے ساتھ   حدیث مذکور کی نشرواشاعت کرے گا  تو وہ موضوع  حدیث کی اشاعت  کرنے والا نہ ہوگا یعنی وہ یہ  بیان  کردے کہ مذکورہ  حدیث کا متن  مشہور ہے ،ا سناد کمزور  ہے مختلف  طرق سے  مروی ہونے کی  وجہ سے مجموعی  طرق کی بناء پر  بعض محدثین  نے اسے حسن  لغیرہ قرار دیا ہے، تاہم اکثر محدثین  نے اس کو موضوع  قرار دیا ہے۔ ( حوالہ کے لیے ملاحظہ  ہو: فیض القدیر، جامع الاصول ، المدخل وغیرہ)

لہذا احتیاط  اس میں ہے کہ اسے حدیث کہہ کر نقل نہ کیاجائے بلکہ مقولہ کے طور پربیان کیا جائے ۔

 ( فی جامع الاحادیث  للعلامۃ السیوطی : ( 5/2)

4) غور کرنے سے  ظاہر نگاہ  میں مونوگرام  کی تصویر صلیب  کی تصویر سے  مختلف نظر آرہی ہے لہذا سائل پہلے  کالج والوں سے اس بات کی  تحقیق کرلے کہ کیاواقعی  انہوں نےا س پر صلیب  کی  تصویر  ہی بنائی ہے ؟ پھر اس  تحقیق  کی تفصیل  کو  دیکھ کر ا س کی  روشنی میں ان شاء اللہ جواب لکھا جائے گا۔

5) مونو گرام میں  درج  عربی عبارات  : ” اطلبوا العلم ولوکان بالصبن ” کو حدیث  کے طور پر بیان  کرنے کے لیے جواب   نمبر 2 میں  درج  تفصیل  کے ساتھ ساتھ  لفظ ” کان ”  کو  بھی ختم کرنا ہوگا ، کیونکہ  اس عبارت  میں ایک  لفظ  ” کان ”  کا اضافہ  بھی  ہے جبکہ حدیث  کے  طور پر کتابوں  میں جو  متن  مشہور ہے اس میں  لفظ ” کان ”  نہیں ہے ۔ تاہم مونو گرام  میں درج عربی عبارات  کو اگر بطور  ایک  جملہ اور مقولہ  کے لکھا گیا ہو اور مقصد  تحصیل   علم کی ترغیب  ہو تو اس  کی  شرعاً گنجائش ہے اور اس  طرح  ترغیبی جملے  عرب مؤلفین  کی تحریرات میں ملتے ہیں  مثلاً کتاب ” الحضارۃ الاسلامیۃ  بین اصالۃ الماضی وآمال المستقبل ( 6/  338)  ” میں ہے  : ” فالرسول  دعا  لطلب  العلم ولوکان بالصین۔” بہر حال  ممکن ہے کہ اس  عبارت  کو لگانے  والوں نے اسی نیت  سے لگائی  ہو اسی  لیے  انہوں نے  اس کے ساتھ حدیث  ہونے کا کوئی  حوالہ درج  نہیں کیا۔ا س بات  کی تحقیق بھی ان سے ہوسکتی  ہے ۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء دارالعلوم کراچی  

عربی حوالہ جات اور مکمل فتویٰ پی ڈی ایف فائل میں حاصل کرنے کے لیے دیے گئے لنک پر کلک کریں:

https://www.facebook.com/groups/497276240641626/539999729702610/

اپنا تبصرہ بھیجیں