ویلنٹائن ڈے کیا ہے

۱۴ فروری کو پوری دنیا میں یوم تجدید محبت منایا جاتا ہے جو ویلنٹائن ڈے کے نام سے مشہور ہے۔

 ویلنٹائن ڈے کی ابتدا :

 محمد عطاء اللہ صدیقی رقم طراز ہیں :

’’اس کے متعلق کوئی مستند حوالہ تو موجود نہیں البتہ ایک غیر مستند خیالی داستان پائی جاتی ہے کہ تیسری صدی عیسوی میں ویلنٹائن نام کے ایک پادری تھے جو ایک راہبہ (Nun) کی زلف گرہ گیر کے اسیر ہوئے۔ چونکہ عیسائیت میں راہبوں اور راہبات کے لیے نکاح ممنوع تھا۔ اس لیے ایک دن ویلن ٹائن نے اپنی معشوقہ کی تشفی کے لیے اسے بتایا کہ اسے خواب میں بتایا گیا ہے کہ ۱۴ فروری کا دن ایسا ہے  کہ اس میں اگر کوئی راہب یا راہبہ صنفی ملاپ کرلیں تو اسے گناہ نہیں سمجھا جائے گا۔ راہبہ نے اس پر یقین کیا اور دونوں جوشِ عشق میں  سب کچھ کر گزرے۔ کلیسا کی روایات کی یوں دھجیاں اُڑانے پر ان کا حشر وہی ہوا جو عموماً ہوا کرتا ہے یعنی انہیں قتل کردیا گیا۔ بعد میں کچھ منچلوں نے ویلن ٹائن صاحب کو’شہید ِمحبت‘ کے درجہ پر فائز کرتے ہوئے ان کی یادمیں دن منانا شروع کردیا‘‘۔

یہ واقعہ14فروری 279عیسوی کو پیش آیا اس کی یاد میں اس دن کو منایا جاتا ہے ۔ اسے عاشقوں کے تہوار(Lover’s Fesitival) کے طور پر منایا جاتا ہے۔

 اسے عاشقوں کے تہوار کے طور پر کیوں منایا جاتا ہے؟ اور سینٹ ویلنٹائن سے اس کی کیا نسبت بنتی ہے ، اس کے بارے میں بک آف نالج کا مذکورہ اقتباس لائق توجہ ہے :

”ویلنٹائن ڈے کے بارے میں یقین سے کیا جاتا ہے کہ اس کا آغاز ایک رومی تہوار لوپر کالیا (Luper Calia) کی صورت میں ہوا۔ قدیم رومی مرد اس تہوار کے موقع پر اپنی دوست لڑکیوں کے نام اپنی آستینوں پر لگا کر چلتے تھے۔ بعض اوقات یہ جوڑے تحائف کا تبادلہ بھی کرتے تھے۔ بعد میں جب اس تہوار کوسینٹ ’ویلن ٹائن‘ کے نام سے منایا جانے لگا تو اس کی بعض روایات کو برقرار رکھا گیا۔ اسے ہر اس فرد کے لیے اہم دن سمجھا جانے لگا جو رفیق یا رفیقہ حیات کی تلاش میں تھا۔

سترہویں صدی کی ایک پراُمید دوشیزہ سے یہ بات منسوب ہے کہ اس نے ویلن ٹائن ڈے والی شام کو سونے سے پہلے اپنے تکیہ کے ساتھ پانچ پتے ٹانکے اس کا خیال تھا کہ ایسا کرنے سے وہ خواب میں اپنے ہونے والے خاوند کو دیکھ سکے گی۔ بعد ازاں لوگوں نے تحائف کی جگہ ویلنٹائن کارڈز کا سلسلہ شروع کردیا۔

ویلنٹائن  ڈےکے حق میں سیکولرنظریہ:

ویلنٹائن ڈے کے بارے میں سیکولر اور آزاد خیال دانش ور طبقہ کی رائے یہ ہے کہ ویلنٹائن ڈے خوشیاں اور محبتیں بانٹنے کا دن ہے۔ ویلنٹائن ڈے کے حوالہ سے اس طبقۂ فکر کی رائے یہ ہے :

”اس روز اگر خاوند اپنی بیوی کو از راہِ محبت پھول پیش کرے یا بیوی اپنے سرتاج کے سامنے چند محبت آمیز کلمات کہہ لے تو اس میں آخر حرج کیا ہے؟

اسلامی نقطہ نظر:

اسلام میں غیرمردوں اور غیر عورتوں کا ایک دوسروں سے ملنا اور اظہارمحبت کرنا منع ہے۔

مسیحی نقطہ نظر:

چرچ نے ان خرافات کی ہمیشہ مذمت کی اور اسے جنسی بے راہ روی کی تبلیغ پر مبنی قرار دیا۔ یہی وجہ ہے عیسائی پادریوں نے اس دن کی مذمت میں سخت بیانات دیے۔ بنکاک کے ایک عیسائی پادری نے بعض افراد کو لے کر ایک ایسی دکان کو نذرآتش کردیا جس پر ویلنٹائن کارڈ فروخت ہورہے تھے۔

پاکستان میں ویلنٹائن ڈے کا تصور نوے کی دہائی کے آخر میں ریڈیو اور ٹی وی کی خصوصی نشریات کی وجہ سے مقبول ہوا۔ شہری علاقوں میں اسے جوش وخروش سے منایا جاتا ہے۔پھولوں کی فروخت میں کئی سو گنا اضافہ ہو جاتا ہے۔یہی حال کارڈز کی فروخت کا ہوتا ہے۔

پاکستان میں گذشتہ دو تین سالوں سے اسے کس انداز میں منایاجارہا ہے اس کااندازہ ۱۴ فروری سے ایک دو روز آگے پیچھے کے کسی بھی قومی اخبار پر سرسری نگاہ ڈال کر کیا جاسکتا ہے۔ ایک  واقعہ ملاحظہ فرمائیے:

” راقم کے ایک دوست نے بتایا کہ۱۴ فروری۲۰۰۴ء(ہفتہ) کو جب میں اپنے کام سے واپس گھر آرہا تھا تو راستے میں ایک جگہ میں نے دیکھا کہ ۲۵،۳۰ نوجوان جنہوں نے سرخ قمیص اور شرٹس پہن رکھی ہیں اور ہاتھوں میں گلاب کے پھول اٹھا رکھے ہیں، ایک سادہ مزاج آدمی کو پیٹ رہے ہیں۔ میں نے انہیں سمجھانے اور روکنے کی کوشش کی تو وہ مجھے بھی دھکے مارنے لگے۔ تحقیق کرنے پر معلوم ہوا کہ یہ مستانوں کی ٹیم ویلنٹائن ڈے منانے کے شوق میں راہ گزرتی خواتین کو تنگ کرنے اور پھول پیش کرنے کا مظاہرہ کررہی تھی۔ اس شخص نے انہیں ایسی فحش حرکتیں کرنے سے منع کرنے کی کوشش کی جس کے نتیجے میں یہ سب اس پر ٹوٹ پڑے۔اس نے کہا:” میں نے سوچا کہ پولیس کو فون کیا جائے مگر قریب کہیں فون کی سہولت میسر نہ تھی ۔ پھر میں اس معمولی واردات کو نظر انداز کرکے آگے بڑھ گیا۔“

اگرچہ بظاہریہ واقعہ چھوٹاہوگا مگر حقیقت میں ایسا نہیں ہے کیونکہ سرکاری سطح پر اگر ایسے اقدامات کی روک تھا م نہ کی گئی تو آئندہ چند برسوں میں جنسی انارکی اور اباحیت کا ایک نہ تھمنے والا سیلاب اس معاشرے کی رہی سہی اسلامی اقدار بہا لے جائے گا۔

درحقیقت اسلامی معاشرے میں غیر مسلموں کے تہواروں کو جان بوجھ کر ہوا دی جارہی ہے تاکہ مسلمان  اسلام  سے دور ہو جائیں ۔یہ سب کچھ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت ہو رہا ہے ۔ اس کی تشہیر میں پرنٹ  اور الیکٹرانک میڈیا کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے ۔ اس دن خصوصی پروگرام دکھا کر یہ باور کرانے کی کوشش کی جاتی ہے  کہ جیسے  یہ غیر ضرررساں یامسلمانوں ہی کا کوئی تہوار ہے ۔

لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے ۔یہ  تہوار اور یہ پروگرام انسان کی ناجائز نفسانی خواہشات کو پروان چڑھاتے ہیں۔  بے راہ روی اور فحاشی کو فروغ دیتے ہیں۔  اس دن بنت حوا  کی عزت برسر بازار  نیلام ہوتی ہے۔ معصوم کلیاں مسل دی جاتی ہیں۔ ہوس کے پجاری اس دن خوشیوں کے شادیانے بجاتے ہیں جبکہ حیاپیکر لوگ شرم سے پانی پانی ہوتے ہیں۔ایک بے ہودہ رسم  ، جس پر اربوں روپے  پھونک دیے جاتے ہیں ۔ اگر بات کریں یورپ کی  تو وہاں بھی لوگوں کی ایک بڑی تعداد  اس تہوار کو غلط  سمجھتی ہے ۔

اس حقیقت کے بعد ساری بات عیاں ہے کہ ایک اسلامی معاشرے میں اس طرح کے تہواروں کو پروان چڑھانا اسلامی معاشرے  میں تباہی و بربادی پھیلانے کے علاوہ کچھ بھی نہیں ۔ ہمیں اس بارے میں بہت گہرائی سے سوچنے کی ضرورت ہے کہ کہیں ہمیں اپنی اسلامی اقدار  سے دور تو نہیں کیا جارہا!ہمیں  سوچنا چاہیے کہ کیا غیر مسلم   عید کا تہوار مناتے ہیں؟  عیدالفطر اور عید قرباں مناتے ہیں؟اس کا جواب یقینا نہیں  میں ہو گا۔  اسی طرح ہمیں بھی چاہیے  کہ ہم صرف اسلامی اقدار کو اپنائیں  اور غیر اسلامی تہواروں کو بالکل رد کردیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں