ویز ا کی خرید وفروخت  کے بارے میں جدید فتویٰ

فتویٰ نمبر:618

سعودی عرب  میں کسی سعودی  شخص کو عامل  کی یا ڈرائیور کی یا کسی معلم کی ضرورت ہوتی ہے ، وہ سعودی  حکومت سے مبلغ  2000 ریال فیس دے کر ویزا لیتا ہے ، پھر وہ  آگے  کسی آدمی  کودیتا ہے  کہ مجھے عامل  کی ضرورت ہے ، کبھی تو ایسے  ہوتا ہے کہ یہ سعودی شخص اس کو ویزا  بیچ دیتا ہے ، مثلا ً 5000 یا 8000 یا 10000 ریال میں ۔ پھر وہ دوسرا آدمی اس کو مزید آگے بیچ دیتا ہے ، کبھی  وہ  سعودی  شخص ویز امفت میں  دے دیتا ہے  لیکن  یہ شخص آگے اس کو جتنے  کا چاہے بیچ دیتا ہے  ۔ کیا اس قسم کی بیع وشراء اجائز  ہے ؟ کچھ علماء  فرماتے ہیں کہ وہ  اس  پر خرچہ  کے بقدر لے سکتا ہے ، زیادہ نہیں ۔ بعض علماء  فرماتے ہیں کہ تھوڑا سا منافع  لے سکتا ہے  ۔ آپ ہر  دو صورتوں کی وضاحت  فرمادیں کہ کس  حد تک  لیاجاسکتا ہے  یا بالکل لینا دینا جائز نہیں ہے ؟  ایسے شخص کی آمدن کا کیا حکم ہے  ؟ وہ دلیل  یہ دیتے ہیں  کہ جب ویزا لینے والا  راضی  ہے تو پھر  کیا اعتراض  ہے؟

الجواب باسم ملہم الصواب

 بعض ٹریول ایجنٹس   ( Travel Agents )  جناب محمد حیان  صاحب ، جناب  محمد عثمان  صاحب  اورسعودی  عرب میں کام کے لیے جانے والے   بعض پاکستانی  حضرات اس سلسلہ  میں معلومات  لی گئیں  ، جن کا  حاصل یہ ہے  :

  • سعودی حکومت  کمپنیوں  کو ویزوں کا کوٹا (Quota )  دیتی ہے، کسی کمپنی  کو سواور کسی  کو پچاس ویزوں کا کوٹا (Quota )   ملتا ہے، جس کو یہ کوٹا ملتا ہے  حکومت  کے پاس اس کا مکمل نام اورا یڈریس وغیرہ موجود ہوتا  ہے اور ہر ویزے  کا ایک انویٹیشن   لیٹر   (Invitation letter)  ہو تا ہے  ، یہ کمنپنیز  مختلف ممالک  ، مثلا ً پاکستان  کے ٹریول ایجنٹس  سے رابطہ  کرکے ان کو یہ لیٹر فروخت کردیتی ہیں ، پاکستانی ٹریول   ایجنٹس  اس  لیٹر کو  اپنا نفع رکھ کر  آگےفروخت  کرتا ہے  ، ہر لیٹر  کی فیس مختلف  ہوتی ہے ۔ جو ویزے  کی نوعیت  کے حساب سے ہوتی ہے ، عام طور پردو ہزارریال  ہوتی ہے ۔ یہ لیٹر قونصلیٹ میں جمع کروانا پڑتا ہے ،ا س لیٹر  پرسعودی  حکومت ویزا جاری کرتی ہے ،ا نویٹیسن   لیٹر کی طرح ویزے  کی فیس  بھی مختلف ہوتی ہے  ، یہ طریقہ  کار کمپنیوں میں رائج ہے  ۔

اسی طرح اگر  کسی عرب  شخص کو انفرادی  طور پر کام  وغیرہ  کے لیے ایک یا زیادہ  افراد کی ضرورت  پڑے  تووہ عامل  کے حصول  کے  لیے حکومتی  ارکان  کو درخواست دیتا ہے حکومتی  ارکان  مذکورہ بالا طریقہ  کے مطابق  پہلے  انویٹیشن  لیٹر  جاری کرتے  ہیں، پھر  ا س لیٹر پر غیر سعودی شخص ( جس کو سعودی  شخص بلاتا ہے )  کے نام پر ویزا جاری کیاجاتا ہے  ، اس ویزے  پرا س کا مکمل نام  اورایڈریس  وغیرہ  درج ہوتا ہے اوریہ  ویزا  پاسپورٹ  پر لگایا جاتا ہے ۔

  • آزاد ویزا کوئی علیحدہ  ویزا نہیں  ہوتا اس  کا  طریقہ کار  بھی مکمل  طور پر یہی ہوتا ہے ،البتہ  اس میں ایک عبارت لکھی ہوتی  ہے  کہ اس ویزا  کے حامل  کو ہر جگہ  جانے کی اجازت  ہے، باقی  اس پر بھی نام اور ایڈریس  وغیرہ سب  درج ہوتا ہے ۔
  • جو سعودی  شخص انویٹیشن  لیٹر جاری کرواتا ہے  اس کا اس لیٹر پر نام ، ایڈریس  اور جس  مقصد  کے لیے اس کو ویزا  چاہیے ، مثلا ً : ڈرائیور یا گھر  کے کام کاج  کے لیے کوئی ملازم  وغیرہ تو اس  کی  بھی وضاحت  ہوتی ہے   گویا  کہ ہر لیٹر  پر تین  چیزیں  ہوتی ہیں  : سعودی  شخص کا نام  ، ایڈریسا ور جس  کام کے لیے عامل چاہیے ۔  یہ بات واضح  رہے کہ سعودی  عرب میں انویٹیشن  لیٹر  کی ہی خریدوفروخت ہوتی ہے ۔ جس کو عام  طور پر لوگ ویز ا کہہ دیتے ہیں کیونکہ  اس  کے بغیر ویزا  جاری نہیں ہوسکتا ، باقی  ویزا پاسپورٹ  پر ایک سٹیمپ  کی صورت میں لگایا  جاتا ہے  اور یہ کسی خاص شخص کے نام پر ہی جاری  کیاجاتا ہے  جس کا حکومت کے پا س مکمل  ایڈریس  وغیرہ  موجود  ہوتا ہے  اس کی خرید وفروخت  بالکل نہیں ہوتی  نیز  جب کوئی  ویز ا کسی  فرد کے نام  جاری  کردیاجائے تو  اس کو کسی اور کے نام پرتبدیل  نہیں کروایا جاسکتا، کیونکہ ایک انویٹیشن  لیٹر پر ایک ہی  ویزا جاری  ہوسکتا ہے ۔ دوسرے وہزے  کے حصول کے لیے  پیچھے  ذکر کردہ کاروائی  مکمل کرنا ضروری  ہوتا ہے  ۔
  • سعودی عرب حکومت سے انویٹیشن  لیٹر خرید کر آگے  مختلف قیمت پر فروخت کرتے ہیں ، سعودی عرب  میں انویٹیشن  لیٹر کی خرید وفروخت  دو قسم کی ہوتی ہے : ایک یہ کہ سعودی  شخص حکومت سے لیٹر لے کر آگے  کسی سعودی  شخص کوکچھ نفع لے کر فروخت  کردے ، حکومت  کی طرف  سے اس  طرح  لیٹر بیچنے پر  بالکل پابندی  ہے  ، خواہ اسی رقم  پر بیچے  یا اس سے زائد رقم پر بیچے ، بلکہ وہ سعودی  شخص یہ لیٹر خود ہی استعمال  کرنے کا پابند  ہوتا ہے ، یعنی  ا س  لیٹر پر کسی شخص  کو سعودی عرب  میں بلا سکتا ہے  یہی وجہ ہے کہ اگر پولیس والوں کو اس بات کا علم ہوجائےکہ   باہر سے آنے والا شخص اس سعودی شخص ( جس کے نام  پر لیٹر جاری  کیاگیاتھا )   کے علاوہ  کسی اور آدمی  ( جس نے  پہلے  شخص سے ویز اخریدا  ہے ) کے پاس کام کررہاہے تو وہ باہر  سے آنے والے شخص کو گرفتار  کرلیتے ہیں ۔

دوسری صورت  یہ کہ سعودی  شخص حکومت  سے انویٹیشن  لیٹر لے کر بیرون  ملک کے کسی غیر  سعودی شخص کو فروخت کرے تو اس کی حکومت  کی طرف سےاجازت  ہے البتہ اضافی  رقم  پر بیچنا  اس صورت میں بھی منع ہے  ۔

مذکورہ بالا معلومات کی روشنی میں انویٹیشن لیٹر کی خریدوفروخت کی دونوں صورتوں کا حکم  یہ ہے  :

پہلی صورت : اگر سعودی شخص  حکومت  سے انویٹیشن  لیٹر لے کرآگے کسی اور سعودی شخص وفروخت کرے تو اس صورت  میں یہ لیٹر آگے بیچنا  دو وجہوں  سے جائز نہیں : پہلی  یہ کہ چونکہ لیٹر جاری کروانے والا شخص  حکومتی  اراکین  کے سامنے یہ ظاہر کرتا ہے  کہ اس کو کام وغیرہ  کے لیے عامل کی ضرورت  ہے  ، جبکہ اس کو ضرورت نہیں تھی اسی لیے  وہ اس کو آگے فروخت کرتا ہے  ، لہذا کسی دوسرے شخص کو  فروخت کرنے کی صورت میں  جھوٹ ، غلط بیانی  اور دھوکہ  دہی کا ارتکاب لازم آتا ہے ، دوسری یہ کہ حکومت  کے جائز قانون  کی خلاف ورزی  کرنے کا گناہ لازم آتاہے ۔ا س لیے  کسی عرب شخص کو انویٹیشن لیٹر فروخت کرنے کی اجازت   نہیں ہے  ، خواہ اسی رقم پر بیچا جائے  یا اس سے کم وبیش رقم پر ۔

دوسری صورت  : اگر سعودی شخص حکومت سے انویٹیشن  لے کر کسی غیرسعودی شخص کو فروخت کرے  تاکہ وہ شخص سعودیہ میں آکر کام کرے تو اس صورت  میں چونکہ  سعودی حکومت کی طرف سے یہ لیٹر  آگے بیچنے کی اجازت دی گئی  ہے اس لیے   اس کا  لیٹر  فروخت کرنا  فی نفسہ جائز  تو ہے ، البتہ  چونکہ حکومت   کی طرف  سے اضافی  رقم پر بیچنے  کی اجازت  دی گئی  ہےا س لیےاس کا لیٹر  فروخت کرنا فی نفسہ جائز  تو ہے البتہ چونکہ  حکومت کی طرف  سے اضافی رقم بیچنے کی اجازت  نہیں ہے ،ا س لیے اضافی  رقم پر بیچنے  کی صورت میں حکومت کے جائز  قانون  کی خلاف ورزی  کا گناہ ہوگا  ، باقی لیٹر  خریدنے والے  شخص کے راضی  ہونے سے حکم   پر کوئی  اثر نہیں  پڑتا ۔

جہاں  تک انویٹیشن لیٹر کو بیچ کر  اس سے حاصل ہونے  والی آمدنی کا تعلق ہے تو مذکورہ  بالا دونوں  صورتوں  کا حکم یہ ہے کہ شرعی اعتبارسے چونکہ اس  لیٹر پر مال کی تعریف صادق  آتی ہے ، کیونکہ اس  کے حصول  کے لیے آدمی  کی محنت  اور مال دونوں  چیزیں  صرف ہوتی  ہیں اور  آج کل  اس کوایک قیمتی   چیز سمجھاجاتا ہے، لہذا وہ شخص  جس کے نام پر یہ لیٹر جاری کیا گیاہواگر وہ آگے کسی  شخص ( خواہ  وہ سعودی  ہو یا غیر سعودی  ) کو نفع کے ساتھ فروخت کرے تو اگرچہ  وہ حکومت  کے جائز قانون  کی خلاف ورزی  کرنے کی وجہ سے گناہ گار  ہوگا ، لیکن  اس کی آمدنی  حرام  نہیں ہوگی  ۔

فقہ البیوع للشیخ محمد تقی العثمانی  ( ج :1 ص281 ) مکتبۃ معارف القرآن  )

حاشیۃ ابن عابدین  (4/501 ) دارالفکر للطباعۃ والنشر۔

واللہ سبحانہ وتعالیٰ

محمد نعمان خالد

دارالافتاء  جامعۃ الرشید  ،کراچی

عربی حوالہ جات اور مکمل فتویٰ پی ڈی ایف فائل میں حاصل کرنے کے لیے دیے گئے لنک پر کلک کریں :

https://www.facebook.com/groups/497276240641626/524429781259605/

اپنا تبصرہ بھیجیں