زبردستی معاف کروانے سے ورثا کا حق ختم نہیں ہوتا

فتویٰ نمبر:675

سوال:حضرت! ہم ۵/ بہنیں اور ۳/ بھائی اور والدہ حیات ہیں۔ والد صاحب کے انتقال کے ڈیڑھ مہینہ بعد ہم بہنوں کو دعوت پر بلایا اور ایک مولانا صاحب بھی آئے ہوئے تھے اور ہمارے ۳/ چچا بھی۔ ہمیں بتایا گیا کہ ہم بہنوں کا اتنا اتنا حصہ شرعاً بنتا ہے نقدی کے حساب سے جو کہ ان کے پاس نہیں، اگر ہم بہنیں اپنا حصہ مانگتی ہیں تو وہ ہمیں ہر چیز کو ترکہ میں سے دیں گے جیسے کہ بکری کی ٹانگ موٹر کا ٹائر اور گائے کی دُم وغیرہ، اور ہمیں یہ بھی کہا گیا کہ پٹھانوں میں بہن کبھی حصہ نہیں لے کر جاتی، اور یہ بھی کہاکہ جو بھی فیصلہ کرنا ہے ابھی کرو ورنہ نہیں، پھر مولانا صاحب نے کہا، نہیں! کل صبح ۹/ بجے تک وقت دے دو اس وقت رات کے ۱۱/ بج رہے تھے، چونکہ ہمارا ایک چھوٹا بھائی تھا جو دارالعلوم میں پڑھتا ہے، ہم نے دباوٴ اور مجبوری میں ہاں بول دیا کہ ہم نے بخش دیا مگر دل سے نہیں، پھر بعد میں پتا چلا کہ اس حساب میں بینک بیلنس اور ایک مکان اور کچھ دوکانیں ڈالی ہی نہیں تھی، اب ہم بہنیں اپنا حصہ چاہتی ہیں مگر وہ لوگ نہیں مان رہے ہیں۔ کیا ہمارا حق شریعت کے حساب سے بنتا ہے یا نہیں؟

بنات محمد فاروق

09870912847

الجواب باسم ملھم الصواب

قرآن و حدیث کی رو سے جس طرح بیٹے والد کی وراثت میں حق دار ہیں اسی طرح بیٹیوں کا حصہ بھی مقرر ہے لہذا بھائیوں یا دیگر رشتہ داروں کے لیے بالکل جائز نہیں کہ وہ بہنوں کو ان کا حصہ دینے سے انکار کریں اور نہ ہی زبردستی معاف کروانا جائز ہے، زبردستی معاف کروانے سے بیٹیاں محروم نہیں ہوتیں، بہنوں کو ان کا حصہ دینے کی مختلف صورتیں ہو سکتی ہیں مثلا نقد رقم اگر موجود نہ ہو تو جائیداد میں سے بہنوں کا حصہ ان کو دے دیا جائے اور باقی اموال میں سے ان کے حصہ کے مطابق کچھ ایسی چیزیں دے دی جائیں جوقابل استعمال ہوں ورنہ کچھ جائیداد وغیرہ بیچ کر نقد رقم کی صورت میں حصہ دیا جا سکتا ہے، الغرض ڈرا دھمکا کرمعاف کروانا بالکل جائز نہیں- نیز شریعت کے احکام سب مسلمانوں کے لیے یکساں ہیں چاہے کوئی پٹھان ہو یا غیر پٹھان !

رہی یہ بات کہ اس مسئلے میں بیٹیوں کا کتنا حصہ ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ والد صاحب کے کل ترکہ میں سے سب سے پہلے ان کی تکفین و تجہیز کا خرچ نکالا جائے گا، پھر اگر ان پر کوئی قرض ہو تو وہ تمام ترکہ میں سے ادا کیا جائے گا، پھر اگر کسی غیر وارث کے حق میں انہوں نے کوئی وصیت کی تھی تو اسے باقی مال کے تیسرے حصہ سے پورا کیا جائے گا، اس کے بعد جو مال بچے اس کے کل 88حصے کیے جائیں گے جن میں سے والدہ کو 11حصے، ہر بیٹے کو 14حصے اور ہر بیٹی کو 7 حصے دیے جائیں گے!

“للذکر مثل حظ الانثیین”

( النساء- 176)

 “فان کان لکم ولد فلھن الثمن مما ترکتم”

(النساء:12)

“عن أبي حرۃ الرقاشي عن عمہ رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: لا یحل مال إمرء مسلم إلا بطیب نفس منہ۔”

(مسند أحمد ۵؍۷۲، شعب الإیمان للبیہقي ۲؍۷۶۹، مشکاۃ المصابیح ۲۵۵، مرقاۃ المفاتیح ۳؍۳۵۰)

واللہ خیر الوارثین

اہلیہ محمود الحسن

صفہ آن لائن کورسز

9-11-2017

اپنا تبصرہ بھیجیں