زکوٰۃ کے پیسہ سے غریب کے لئے مکان بناکر دینا

کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: کیا زید اپنی زکوٰۃ کی رقم سے کسی غریب کو مکان تعمیر کراکر دے، اپنے ملازم کے ذریعہ اپنی نگرانی میں مثلاً یہ کہہ دیا کہ روز کا حساب جو خرچ ہے وہ لے لے، زید ملازم جو بھی خرچ آتا ہے، وہ رقم زید کی کمپنی سے یا زید کے پاس سے خود لے جاکر تقسیم کردیتا ہے، مزدور کو اتنا، گارے والے کو اتنا، پتھر والے کو اتنا، اب سوال یہ ہے کہ صاحب مکان جس کے لئے تعمیر کررہا ہے، اس کے ہاتھ میں یہ رقم نہیں آتی، اور صاحب مکان اس عمل پر راضی بھی ہے کہ رقم میرے پاس ہو تو ضائع ہوجائے گی تو کیا صورتِ مسئولہ میں زید کے ذمہ سے یہ زکوٰۃ کی رقم ساقط ہوجائے گی یا نہیں؟ اس طرح کرنے سے زید کی زکوٰۃ ادا ہوگی یا نہیں؟ یا صاحب مکان ہی کے ہاتھ میں یہ رقم دینی ہوگا؟

فتویٰ نمبر:247

باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مکان کی تعمیر مکمل ہونے کے بعد جب وہ مکان غریب کو دیا جائے گا  تو اس وقت زید کی زکوٰۃ ادا ہوجائے گی؛ اس لئے کہ اب مستحق کا قبضہ پایا گیا؛ لہٰذا اس صورت میں دورانِ تعمیر غریب ہی کے ہاتھ سے مکان پر خرچ کرانا ضروری نہیں ہے۔ (مستفاد: احسن الفتاویٰ ۴؍۱۹۰) 

ولا یجوز الزکاۃ إلا إذا قبضہا الفقیر أو قبضہا من یجوز قبضہا لہ لولایتہ علیہ کالأب والوصي یقبضان للمجنون والصبي۔ (الفتاوی التاتارخانیۃ ۳؍۲۱۲ رقم: ۴۱۵۳)

قولہ: ’’تملیک‘‘ خرج الإباحۃ فلو أطعم یتیما ناویاً الزکاۃ لایجزیہ، إلا إذا دفع إلیہ المطعوم کما لو کساہ بشرط أن یعقل القبض إلا إذا حکم علیہ بنفقتہم۔ (الدرالمختار ۲؍۲۵۷ کراچی)

ولا تجوز الزکاۃ إلا إذا قبضہا الفقیر أو نائبہ …؛ لأن التملیک لا یتم بدون القبض۔ (الفتاویٰ الولوالجیۃ ۱؍۱۷۹ دار الکتب العلمیۃ بیروت) فقط واللہ تعالیٰ اعلم

کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۱۷؍۵؍۱۴۲۰ھ

الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اللہ عنہ

اپنا تبصرہ بھیجیں