زکوۃ کا حقدار کون

فتویٰ نمبر:2046

سوال: محترم جناب مفتیان کرام! 

میری عمر پچاس سال ہےشادی کو اٹھائیس سال ہو گئے ہیں۔ میرے نکاح میں آدھا مکان ہے شراکت میں دیورانی ہے۔ دو کمرے میرے پاس ہیں ایک کمرے میں ساس ہوتی ہیں ایک ہی باتھ روم ہے۔ دیورانی کا اور میرا کچن ایک ہی شراکت میں ہے۔ میرے چار بچے ہیں ۔ گھر چھوٹا ہونے کی وجہ سے آدھا بھی نہیں ہو سکتا اور بک بھی نہیں سکتا۔ اب مجھے گھر کی ضرورت ہے ۔ ماشاء اللہ دو بیٹے بڑے ہیں۔ میرے شوہر بیمار ہیں، میرے بیٹے کی تنخواہ تیس ہزار ہے اور کوئی سرمایہ نہیں ہے۔ پندرہ ہزار کی دوائی ہر ماہ کی ہوتی ہے۔

بچوں کے لیے اب مجھے گھر کی ضرورت ہے۔ اب زکوۃ میں کوئی مکان بنا کر مجھے دے سکتا ہے؟ کیا ایسا جائز ہے؟

باتھ روم ایک ہی ہے جو ساس کے کمرے میں ہے اور ایک کمرے میں ہم بچوں سمیت چھ بندے رہتے ہیں۔

والسلام

سائلہ کا نام: آمنہ 

پتا: صدر روالپنڈی

الجواب حامداو مصليا

مذکورہ سوال اگر حقائق پر مبنی ہے یعنی آپ صاحب نصاب نہیں ہیں تو آپ کے لیے زکوۃ کی رقم لے کر اسے اپنی ضروریات میں لگانا درست ہے۔

“انما الصدقات للفقراء و المساکین و العاملین علیھا و المولفۃ قلوبھم و فی الرقاب و الغارمین و فی سبیل اللہ و ابن السبیل فریضۃ من اللہ”۔

{سورۃ التوبہ ۶۰؛۹}

“فقیر: ھو من لہ ادنی شیء، و لا یبلغ مالہ نصابا۔” 

{تسھیل الضروری للمسائل القدوری ۱۲۰}

و اللہ سبحانہ اعلم

قمری تاریخ:7ربیع الثانی 1440

عیسوی تاریخ:14دسمبر 2018

تصحیح وتصویب:مفتی انس عبد الرحیم

ہمارا فیس بک پیج دیکھیے. 

فیس بک:

https://m.facebook.com/suffah1/

ہمارا ٹوئیٹر اکاؤنٹ جوائن کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں. 

ٹوئیٹراکاؤنٹ لنک

https://twitter.com/SUFFAHPK

ہماری ویب سائٹ سے وابستہ رہنے کے لیے کلک کریں:

www.suffahpk.com

ہمارے یوٹیوب چینل کو سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں:

https://www.youtube.com/channel/UCMq4IbrYcyjwOMAdIJu2g6A

اپنا تبصرہ بھیجیں