عشرہ مبشرہ کا تفصیلی تعارف : چوتھی قسط
خلافت کیلئے انتخاب
رسول اللہﷺکی حیاتِ طیبہ کے دوران مسلمانوں کے تمام امورمخصوص اندازسے چل رہے تھے۔ پھرآپ ﷺکی اس جہانِ فانی سے رحلت کے نتیجے میں سب کچھ بدل کررہ گیا، ظاہرہے کہ ایسی حالت میں امت کوکسی پاسبان ونگہبان کی اشداورفوری ضرورت تھی،تاکہ بیرونی دشمنوں اوراندرونی بدخواہوں،منافقوں اورموقع پرستوں کوکسی سازش کاموقع نہ مل سکے۔
چنانچہ سن گیارہ ہجری بتاریخ ۱۲/ربیع الاول بروزپیر کو جب رسول اللہﷺکے انتقال کا جاں گدازواقعہ پیش آیا،اورآپﷺ کی تجہیزوتکفین کے سلسلے میں ہی مشاورت کی غرض سے اکابرصحابہ میں سے متعددحضرات آپﷺ کے گھرمیں موجودتھے، اس دوران کچھ لوگوں نے وہاں موجودحضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ کوآکراطلاع دی کہ ’’سقیفۂ بنی ساعدہ‘‘نامی مقام پربڑی تعدادمیں لوگ جمع ہیں اوروہاں یہ موضوع زیرِبحث ہے کہ اب رسول اللہﷺکاخلیفہ اورجانشیں کون ہوگا؟یہ اطلاع ملنے پرحضرت عمررضی اللہ عنہ نے حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ سے اصرارکرتے ہوئے کہاکہ’’قبل اس کے کہ معاملہ نازک ہوجائےہمیں وہاں چلناچاہئے‘‘
چنانچہ یہ حضرات وہاں پہنچے ، وہاں یہی موضوع زیرِبحث تھا،اورکسی بھی لمحے یہ معاملہ کوئی غلط رُخ اختیارکرسکتاتھا،صورتِ حال کی اس نزاکت کوبھانپتے ہوئے حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ نے لوگوں کومخاطب کرتے ہوئے اس نازک موقع پر ’’فتنہ وافتراق‘‘سے بچنے اوراتفاق واتحادکوبہرصورت قائم رکھنے کی اہمیت وضرورت کے بارے میں مختصرگفتگوکی ۔ اس کے بعدحضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ اور حضرت ابوعبیدہ عامربن الجراح رضی اللہ عنہ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایاکہ ’’یقینایہی دوحضرات رسول اللہﷺکی جانشینی کے قابل ہیں، لہٰذا میرامشورہ یہ ہے کہ ان میں سے کسی ایک کے ہاتھ پرجلدازجلدبیعت کر لی جائے‘‘۔
حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کی یہ بات سُن کرحضرت ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا’’ہم میں سے کس کادل اس بات کوگواراکرے گاکہ وہ شخص جسے خودرسول اللہ ﷺ نے ہماری امامت کیلئے منتخب فرمایاتھا،اس کے ہوتے ہوئے کسی اورکواس منصب کیلئے پسند کیا جائے؟
حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کی زبانی یہ بات سنتے ہی حضرت عمررضی اللہ عنہ نے حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے اصرارکیا’’ابوبکر،اپناہاتھ بڑھائیے‘‘ جس پرحضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے ان کی جانب اپناہاتھ بڑھایا،اورتب فوراًہی حضرت عمررضی اللہ عنہ نے وہاں موجودلوگوں کومخاطب کرتے ہوئے بآوازِبلندیہ الفاظ کہے’’لوگو!میں ابوبکرکے ہاتھ پربیعت کررہاہوں،تم سب بھی انہی کے ہاتھ پربیعت کرلو، یہی رسول اللہﷺکے جانشیں ہیں‘‘۔
اس پروہاں موجودسب ہی افرادنے حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کی ۔ کبارِصحابہ کرام میں سے چندافراداس وقت وہاں موجودنہیں تھے ، جنہوں نے بعدمیں مسجدِنبوی میں بیعت کی۔ یوں حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کوبالاتفاق رسول اللہ ﷺکے جانشین اور’’خلیفۂ اول‘‘ کی حیثیت سے منتخب کرلیاگیا۔
خلافت کی ذمہ داری سنبھالنے کے فوری بعدحضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے مختصرخطبہ دیتے ہوئے فرمایا:
أیُّھَا النَّاس! اِنِّي وُلِّیْتُ عَلَیکُم وَلَستُ بِخَیرِکُم ، اِن أحسَنْتُ فَأعِینُونِي ، وَاِن أسَأتُ فَقَوِّمُونِي ، الصِّدقُ أَمَانَۃ ، وَالکَذِبُ خِیَانَۃ ، الضَّعِیفُ فِیکُم قَوِيٌّ عِندِي حَتّیٰ أُرجِعَ اِلَیہِ حَقَّہٗ ، وَالقَوِيُّ فِیکُم ضَعِیفٌ عِندِي حَتّیٰ آخُذَ مِنہُ حَقَّہٗ ، أطِیعُونِي مَا أطَعتُ اللّہَ وَ رَسُولَہٗ ، فَاِن عَصَیتُ اللّہَ وَ رَسُولَہٗ فَلَا طَاعَۃَ لِي عَلَیکُم
ترجمہ:’’لوگو!میں تمہاراامیرمقررکیاگیاہوں ٗحالانکہ میں تم سے افضل نہیں ہوں۔اگرمیں اچھے کام کروں توتم میری مددکرنا،غلطی کروں تواصلاح کرنا۔سچ امانت ہے،جبکہ جھوٹ خیانت ہے۔تم میں سے جوشخص کمزورہے ،وہ میرے نزدیک طاقتورہے جب تک میں اسے اس کاحق نہ دلادوں۔اورتم میں سے جوکوئی طاقتورہے، میرے نزدیک وہ کمزورہے، تاوقتیکہ میں اس سے حقدارکاحق وصول نہ کرلوں۔تم میری اطاعت کروجب تک میں اللہ اوراس کے رسول ؐکی اطاعت کروں۔ اور اگرمجھ سے کوئی ایساعمل سرزدہوجس میں اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کاپہلونکلتاہو، توتم پرمیری اطاعت واجب نہیں ہوگی۔ اللہ تم پررحم فرمائے‘‘۔
خلیفۂ اول کی اس اولین تقریر کے ایک ایک جملے میں رسول اللہﷺکی پاکیزہ تعلیم وتربیت اوراخلاص وتقویٰ کی جھلک نمایاں نظرآتی ہے۔ نیزاس اولین تقریرمیں انہوں نے یہ وضاحت وصراحت کردی کہ ان کااندازِفکریہ ہے کہ ’’وہ خودکوعوام الناس سے ممتاز ومنفرد تصور نہیں کرتے‘‘۔ نیزان کااندازِحکمرانی یہ ہوگاکہ’’ سچ کی نشرواشاعت اورجھوٹ کاراستہ روکنے کی ہرممکن کوشش کی جائے گی، اوریہ کہ ہرقیمت پرانصاف کابول بالاکیاجائے گا ،جبکہ ظلم وناانصافی کا مکمل سدِباب کیاجائے گا، نیزیہ کہ جب تک وہ خوداللہ عزوجل کی اطاعت وفرمانبرداری کے راستے پرگامزن رہیں گے ،عوام الناس پران کی اطاعت وفرمانبرداری محض اُسی وقت تک ضروری ولازمی ہوگی‘‘۔
جیشِ اُسامہ کی روانگی
رسول اللہﷺنے اپنی حیاتِ طیبہ کے بالکل آخری دنوں میں رومیوں کی طرف سے مسلمانوں کے خلاف بلاجوازمسلسل اشتعال انگیزی کے جواب میں مناسب کارروائی کی غرض سے ایک لشکرتیارفرمایاتھا،اورپھراسامہ بن زیدرضی اللہ عنہما(جواس وقت بالکل نوعمرتھے)کی زیرِقیادت اس لشکرکوملکِ شام کی جانب روانگی کاحکم دیاتھا۔ لیکن رسول اللہ ﷺ کی ناسازیٔ طبع کی وجہ سے یہ لشکرمدینہ شہرسے کچھ فاصلے پرپہنچ کررک گیاتھا،اور پھرانہی حالات میں رسول اللہﷺکاانتقال ہوگیاتھا۔
رسول اللہﷺ کے اولین جانشین کی حیثیت سے صدیقِ اکبررضی اللہ عنہ نے جب خلافت کی ذمہ داری سنبھالی تو اب ان بدلے ہوئے حالات میں لشکرکومدینہ سے دوربھیج دینابہت ہی نازک اورانتہائی خطرناک اقدام تھا۔ کیونکہ اُن دنوں مسلمان جس نازک ترین صورتِ حال سے دوچارتھے ، اس سے بھرپورفائدہ اٹھاتے ہوئے اندرونی وبیرونی دشمن مسلمانوں پرفیصلہ کن ضرب لگانے کیلئے تیاربیٹھے تھے،لہٰذااس موقع پربڑے بڑے صحابۂ کرام نے مصلحت سے کام لینے اوراس لشکرکی روانگی کوفی الحال مؤخرکردینے کامشورہ دیا۔ جس پرحضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے نہایت پُرعزم اندازمیں دوٹوک فیصلہ سنایاکہ ’’جس لشکرکی روانگی کاحکم خودرسول اللہﷺنے دیاتھا ،وہ لشکرضرورجائے گا‘‘۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ کی رحلت کے بعداب صدیقِ اکبررضی اللہ عنہ کے اس حکم کی تعمیل میں یہ لشکرروانہ ہوا، جس کی وجہ سے دشمنوں پرمسلمانوں کارعب قائم ہوگیا،اوروہ اب اس سوچ میں پڑگئے کہ ہم تومسلمانوں کوکمزورتصورکررہے تھے،لیکن ان میں تودم خم باقی ہے،ان کے حوصلے بلندہیں ، تب ہی تواس قدرنازک صورتِ حال کے باوجودیہ لشکرروانہ ہواہے‘‘۔ یوں صدیقِ اکبررضی اللہ عنہ کایہ اقدام مسلمانوں کے حق میں مفیدثابت ہوا،اوراس کے نتائج مثبت اورخوشگوار رہے۔
فتنوں کی سرکوبی
رسول اللہﷺکے سانحۂ ارتحال کے نتیجے میں اچانک جواتنابڑاخلاپیداہوگیاتھااس کی وجہ سے دشمنوں اورفتنہ پردازوں نے مسلمانوں کے خلاف تانے بانے بُننے شروع کردئیے۔ اندرونی منافقین اوربدخواہ توہمیشہ سے ہی کسی ایسے ہی نازک موقع کی تلاش میں تھے، ان کے علاوہ بیرونی دشمن بھی عرصۂ درازسے مسلمانوں پرضربِ کاری لگانے اور ا نہیں نیست ونابودکردینے کی حسرت دل میں لئے بیٹھے تھے، جس کے نتیجے میں دیکھتے ہی دیکھتے حالات بگڑنے لگے،چہارسومختلف قسم کے فتنے سراٹھانے لگے۔
ایسے میں رسول اللہﷺکے اولین جانشین کی حیثیت سے ان تمام ترفتنوں کی سرکوبی کی ذمہ داری حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کے کندھوں پرآپڑی،ان میں سے چنداہم فتنوں کا مختصر تذکرہ درجِ ذیل ہے۔
فتنۂ ارتداد
ملکِ عرب کے دوردرازعلاقوں میں آبادمتعددقبائل سے تعلق رکھنے والے بہت سے ایسے افرادتھے جنہوں نے رسول اللہﷺکی حیاتِ طیبہ کے بالکل آخردنوں میں مدینہ آکردینِ اسلام قبول کیاتھا، رسول اللہﷺکی خدمت میں زیادہ وقت گذارنے اوردینِ اسلام کی تعلیمات مفصل طورپرسیکھنے کاانہیں موقع نہ مل سکاتھا، یہی وجہ تھی کہ دینِ اسلام ان کے دلوں میں راسخ نہیں ہواتھا۔ لہٰذارسول اللہﷺکی وفات کی خبرسنتے ہی ان کے قدم ڈگمگانے لگے،گذشتہ تمام عمرجن فضولیات وخرافات میں اورجس لہوولعب میں بسرکی تھی ، اب دوبارہ انہیں اسی میں کشش محسوس ہونے لگی، اوررفتہ رفتہ یہ لوگ دینِ اسلام سے منحرف ہونے لگے، دیکھادیکھی یہ فتنہ بہت سے قبائل میں نہایت سرعت کے ساتھ پھیلتا چلا گیا،اوربڑی تیزی کے ساتھ لوگ دینِ اسلام سے برگشتہ ومنحرف ہوتے چلے گئے۔
مانعینِ زکوٰۃ
رسول اللہﷺکی اس جہانِ فانی سے رحلت کے فوری بعدبہت سے قبائل نے یہ اعلان کردیا کہ رسول اللہﷺکے بعداب ہم نمازتوپڑھیں گے، لیکن زکوٰۃ ادانہیں کریں گے،یہ فتنہ بھی مرورِوقت کے ساتھ شدت پکڑتاچلاگیا۔
جھوٹے مُدعیانِ نبوت
رسول اللہﷺکے انتقال کے فوری بعدملکِ عرب کے اطراف واکناف میں آبادمختلف قبائل سے تعلق رکھنے والے متعددافرادنے نبوت کادعویٰ کردیا۔ ظاہرہے کہ ان لوگوں کا مقصدحصولِ اقتدار اورمسلمانوں میں افتراق وانتشارپیداکرناتھا،قوم پرستی اورقبائلی تعصب کی بنیادپربہت جلددیکھتے ہی دیکھتے ہزاروں افرادان کے ہمنوا بن گئے۔ یوں یہ فتنہ ہرگذرتے دن کے ساتھ شدت اختیارکرتاچلاگیا۔
اس قدرنازک ترین صورتِ حال میں کہ جب ان فتنوں نے تمام ملکِ عرب کوہلاکررکھ دیاتھا، اور یوں محسوس کیاجانے لگاتھاکہ خدانخواستہ دینِ اسلام کی کشتی ہچکولے کھانے لگی ہے، اوریہ کہ مسلمانوں کاشیرازہ ہی بکھراجارہاہے، یہی وجہ تھی کہ اس موقع پربڑے بڑے صحابۂ کرام ’’مصلحت‘‘سے کام لینے کامشورہ دے رہے تھے،لیکن صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ کے پائے استقامت میں ذرہ برابرلغزش نہ آسکی۔ چنانچہ انہوں نے اس موقع پرانتہائی استقامت اوربے مثال جرأت وشجاعت کامظاہرہ کرتے ہوئے ان تمام ترفتنوں کی سرکوبی کافریضہ بحسن وخوبی انجام دیا۔
(جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔)