بیچی گئی گاڑی کی قابل وصول قیمت کی زکوٰۃ کس پر واجب ہے؟

سوال:السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

انتہائی قابلِ احترام مولانا صاحب

مولانا میں نے ایک گاڑی دس لاکھ روپے کے عوض کسی پر بیچ دی ہے اور وہ مجھے یہ دس لاکھ روپے پانچ سال بعد دیتا ہے یا پانچ سالوں میں ہر سال دو دو لاکھ روپے دیتا ہے قسطوں کے ساتھ۔

اب امر مطلوب یہ ہے کہ اس رقم کی زکوٰۃ کس کے ذمے ہے میرے یا مشتری کے؟

اگر میں مشتری کو اس بات پر راضی کروں کہ زکوٰۃ آپ کے ذمے ہے توکیا یہ صحیح ہے؟

تینوں صورتوں کا مفصل و مدلل جواب دے کر مشکور و ممنون فرمائیں۔

اللہ رب العزت آپ کی زندگی میں برکت عطا فرمائے آمین یارب العالمین

الجواب باسم ملھم الصواب

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

سوال میں کیونکہ اس بات کی وضاحت نہیں کہ گاڈی ذاتی استعمال کی تھی یا تجارت کی تھی ۔لہذا دونوں صورتوں کا حکم لکھا جاتا ہے۔

(1) اگر یہ گاڑی آپ کی اپنی ذاتی استعمال کی تھی تو اس کی قیمت مشتری کے ذمہ آپ کا قرض ہے،اس قرض کو شریعت کی اصطلاح میں دَین متوسط کہتے ہیں۔اور مفتی بہ قول کے مطابق دین متوسط پر ماضی کے سالوں کی زکوٰۃ واجب نہیں ہوتی۔

لہذا اس کی زکوٰۃ فی الحال آپ پر واجب نہیں۔وصولی کے بعد اگر وہ بقدر نصاب ہو تو اس پر سال مکمل ہونے کے بعد زکوٰۃ واجب ہوگی ۔اور اگر آپ پہلے سے صاحب نصاب ہیں تو دیگر اموال پر جب زکوٰۃ نکالی جائے گی تو اس رقم پر بھی زکوٰۃ ادا کی جائے گی ۔

(2) اور اگر یہ گاڈی تجارت کی تھی تو اس کی قیمت دین قوی ہے جس کی زکوٰۃ ہر حال میں فروخت کنندہ پر لازم ہوتی ہے ،خریدار پر لازم نہیں ہوتی۔لہذا مذکورہ رقم کی زکوٰۃ بھی آپ پر لازم ہوگی،تاہم اس رقم کی زکوٰۃ کی ادائی اس وقت آپ کے ذمہ لازم ہوگی جب آپ کو وصول ہوجائے۔چاہے سوال کے مطابق دو دو لاکھ وصول ہو یا یک مشت وصول ہو۔ ہر دو صورتوں میں گزشتہ سالوں کی زکوٰۃ بھی ادا کرنا آپ پر لازم ہوگا۔

البتہ اگر آپ ساتھ ساتھ وصول ہونے سے پہلے ہی اس رقم کی زکوٰۃ ادا کرتے رہیں گے تو یہ بہتر ہے۔

لہذا خریدار کو اگر آپ اس بات پر راضی بھی کر لیں کہ وہ اس مال کی زکوٰۃ ادا کرتا رہے تب بھی اس کا کوئی اعتبار نہیں اور نہ ہی اس پر اس رقم کی زکوٰۃ ہے۔

====================

1-(الھدایہ مع الدرایۃ،کتاب الزکوٰۃ:ص:203,م بلال دیوبند)

“و لو كان الدين على مقر ملئ او معسر تجب الزکوٰۃ لامکان الوصول الیہ ابتداء او بواسطۃ التحصیل ۔۔۔۔۔۔۔۔ومن اشتری جاریۃ للتجارہ ونواھا للخدمۃ بطلت عنھا زکوٰۃ۔۔۔۔۔۔۔۔۔حتی یبیعھا فیکون فی ثمنھا زکوٰۃ”

2-(در المختار:2/236)

(وَ) اعْلَمْ أَنَّ الدُّيُونَ عِنْدَ الْإِمَامِ ثَلَاثَةٌ: قَوِيٌّ، وَمُتَوَسِّطٌ، وَضَعِيفٌ؛ (فَتَجِبُ) زَكَاتُهَا إذَا تَمَّ نِصَابًا وَحَالَ الْحَوْلُ، لَكِنْ لَا فَوْرًا بَلْ (عِنْدَ قَبْضِ أَرْبَعِينَ دِرْهَمًا مِنْ الدَّيْنِ) الْقَوِيِّ كَقَرْضٍ (وَبَدَلِ مَالِ تِجَارَةٍ) فَكُلَّمَا قَبَضَ أَرْبَعِينَ دِرْهَمًا يَلْزَمُهُ دِرْهَمٌ (وَ) عِنْدَ قَبْضِ (مِائَتَيْنِ مِنْهُ لِغَيْرِهَا) أَيْ مِنْ بَدَلِ مَالٍ لِغَيْرِ تِجَارَةٍ وَهُوَ الْمُتَوَسِّطُ كَثَمَنِ سَائِمَةٍ وَعَبِيدِ خِدْمَةٍ وَنَحْوِهِمَا مِمَّا هُوَ مَشْغُولٌ بِحَوَائِجِهِ الْأَصْلِيَّةِ كَطَعَامٍ وَشَرَابٍ وَأَمْلَاك”ٍ.

فقط-واللہ تعالی اعلم بالصواب

قمری تاریخ: 27 جمادی الآخری،1443ھ

شمسی تاریخ:31 جنوری 2022

اپنا تبصرہ بھیجیں