فتویٰ نمبر:406
سوال : الحمد للہ راقم کے گھر کا ماحول بہت ہی اچھا ہے کھانے کی میز پر چھوٹے بڑے ملا کر نو افراد بیٹھے ہوتے ہیں ۔ راقم کی دوں بہوئیں نقاب / حجاب کے ساتھ کھانا کھاتی ہیں ان کو ہر نوالے اور پانی پینے کے لیے نقاب ہٹانی پڑتی ہے اس کا حل تجویز فرمائیں ۔ نیز مرد حضرات کی ضروری اور کم ضروری چھوٹی پوتی کے ساتھ بحکم اللہ ان کے کمالات پر گفتگو ہوجاتی ہے ۔
(ب) راقم کے ہاں ہر اتوار کو وہی نو افراد تربیتی پروگرام میں شریک ہوتے ہیں جس میں خواتین باپردہ ( نقاب کے ساتھ ) ہوتی ہیں اس تربیتی پروگرام میں ایسی آدیو کیسٹ لگائی جاتی ہے جس میں تفسیر کا بیان ہوتا ہے یعنی موضوع وعنوان ایسا ہوتا ہے کہ بچے ، بڑے مرد خواتین سب ہی ایک ساتھ سن سکتے ہیں ۔
درج بالا کے سلسلے میں ایک سوال یہ ہوا کہ کھانا کھانا تو ناگزیر ہے یعنی بیٹ بھرے بغیر تو گذارہ نہ ہوگا مگر اجتماعی دینی آڈیو کیسٹ سننا تو عبادت ہے اور عبادت میں بھی آمنے سامنے نقاب لگا کر بیٹھنا کیسا ہے ۔ یہ کھانا تو نہیں مجبوری ہے ۔(استغفراللہ )
یاد رہے جس بڑے کمرے میں بیٹھ کر آڈیو سناجاتا ہے وہاں آمنے سامنے صوفے رکھے ہوئے ہیں ۔
(ج) الحمد للہ بہوئیں بیٹوں سے زیادہ سسر کا خیال رکھتی ہیں راقم بوڑھا ہے اس لئے ایک دم دور تک پکنک پر نہیں جاسکتا۔ وہ قریب کے ہوٹل لے جاتی ہیں وہاں بھی نقاب میں کھانا کھاتی ہیں ۔
وہ ہوٹل والازبردست دیندار شخص ہے عام دنوں میں تو میزیں دور دور ہوتی ہیں مگر اتوار والے دن حد درجہ رش کی وجہ سے مجبوراً میزیں قریب قریب لگادیتا ہے ۔ جس میں جوان ، بزرگ بچے مرد وخواتین ہوتے ہیں وہاں کھانا کھاتے وقت نقاب کا کچھ حصہ جلدی سے ہٹا کر نوالہ لے لیاجاتا ہے ۔
(د)عورت کا لباس اس کی زینت ہے اور زینت کا تبرج منع ہے ۔ سوال یہ ہے کہ جیٹھ اور ان کے بالغ بچوں کے سامنے اگر لباس کے اوپر صرف اسکارف گھر میں لیاجائے جس سے چہرہ ڈھکا ہے تو حجاب مکمل ہے ؟
جواب : (الف) ایک گھر میں عورت کو ہر وقت مکمل پردے کے ساتھ رہنے میں بڑا حرج ہے جس کی وجہ سے شریعت نے یہ گنجائش دی ہے کہ کام کاج کرتے وقت اور جن مواقع میں گھر کے غیر محرم کا سامنا ہونے کا اندیشہ ہو وہاں اسکارف پہنے رکھاجائے جس میں عورت کے چہرے ،ہاتھوں اور پیروں کے سوا کوئی اور عضو جسم یا بال نظر نہ آئیں ۔
ظاہر ہے کہ گھر کے تمام افراد کا ایک ساتھ کھانا کھانا کوئی ایسی مجبوری نہیں جس کی بنا پر غیر محرم افراد کے سامنے چہرہ کھول کر کھانے کی اجازت دی جائے اور نہ یہ مناسب ہے کہ ایک ساتھ کھانے میں عورت کو کھانے کے دوران بھی حجاب کا پابند بنایاجائے ۔ یہ دونوں طرز عمل افراط وتفریط پر مبنی ہیں۔
اس لیے مناسب حل یہ ہے کہ خواتین اکھٹی الگ کھانا کھائیں اور مرد حضرات اکھٹے کھانا کھائیں ۔ نابالغ بچے بچیاں کسی طرف کھانے میں شامل ہوجائیں تو کوئی حرج نہیں ۔
(ب) اس کی گنجائش ہوسکتی ہے ۔ بہتر یہ ہے کہ محرم وغیرہ کے درمیان پردہ یا دیوار حائل ہو تاکہ خواتین بغیر مشقت کیسٹ سن سکیں ۔
(ج) اسلام نے عورت کو گھر کی ملکہ اور خاتون خانہ بنایا ہے اور اس کی عفت وعصمت کی حفاظت ، شیطانی آنکھ سے اس کے بچاؤ اور دیگر کئی وسیع البنیاد مصلحتوں کی بنا پر اسے گھر کے آنگن میں ہی رہنے کا حکم عطاکیا ہے ۔ لیکن ساتھ میں انسانی ضرورتوں اور اپنی وسعت نظر کی بنا پر مواقع ضرورت میں بقدر ضرورت ، حجاب کے ساتھ باہر نکلنے کی بھی اجازت دی ہے ۔
دماغی تفریح اور نشاط کے لیے عورت کا پکنک کے لیے باہر نکلنا ایک گونہ ضرورت ہے جس میں درج ذیل شرائط کی رعایت ہو تو اس کی گنجائش ہوسکتی ہے ، ورنہ نہیں :
1۔عورت سر سے پاؤں تک چادر یا برقوے میں اس طرح مستور ہو کہ راستہ دیکھنے کے لیے صڑف ایک آنکھ کھلی ہو۔
2۔لباس سادہ پہنے ، پر کشش اور شوخ لباس سے اجتناب کرے۔
3۔خوشبو نہ لگائے ۔
4۔بجنے والا زیور نہ پہنے ۔
5۔ مردوں کے ہجوم میں داخل نہ ہو۔
6۔بلاضرورت کسی اجنبی سے بات نہ کرے۔
7۔تفریح کی جگہ پر امن ہو، کسی قسم کے فتنے کا اندیشہ نہ ہو ۔
8۔تفریح کو معمول بنایاجائے ، بلکہ بقدر ضروت اس پر اکتفاء کیاجائے ۔
بقدر ضرورت دماغی تفریح اور نشاط کے لیے پکنک اور تفریح کے مقامات پر جانا تو سمجھ میں آتا ہے ۔لیکن ہوٹل میں کھانا کھانے ہی کو پکنک کانام دنیا اور اس کے لیے عورت کا باہر نکلنا مناسب معلوم نہیں ہوتا، اس سے بچنا چاہیے ، بالفرض کبھی ایسا موقع آن پڑے کہ ہوٹل میں کھانا ناگزیر ہوتو ایسے ہوٹل کا انتخاب کیاجائے جہاں پردے یا فیملی روم کا انتظام ہو اور عوعرت بھی تمام شرائط بالا کا لحاظ رکھے ۔
(د)علما نے اس کی گنجائش دی ہے ۔ واللہ اعلم بالصواب