انعامی بانڈ سے ملنے والے نفع کا کیا حکم ہے

فتویٰ نمبر:640

سوال:  پرائز بانڈ  یعنی انعامی بانڈ  پر اضافی ملنے والا  نفع  سود ہے  ؟ اگر سود  ہے  تو کیوں سود ہے   ؟ کیونکہ  یہ اضافی  منافع کچھ لوگوں   کو ملتا ہے سب   انعامی بانڈ لینے والوں کو نہیں ملتا۔ کیا یہ  پھر بھی   سود  ہے؟  

جواب:  پرائز بانڈ  پر ملنے والا  انعام سود  ہے یا نہیں  ؟ اس کو سمجھنا  پرائز بانڈ  کی حقیقت سمجھنے  پر موقوف ہے ۔ پرائز بانڈ  کی حقیقت  کو سمجھ لیاجائے  تو اس کا  سود  ہونا آسانی  سے سمجھا جاسکتا ہے۔

پرائز بانڈ  کی حقیقت یہ ہے کہ   حکومت کو اپنے   مختلف  منصوبوں  کے لیے پیسوں  کی ضرورت پڑتی ہے ۔ اس کے لیے  وہ عوام  سے قرضے  لیتی ہے   جس کی رسیدیں  بانڈ کی صورت  میں جاری کی جاتی ہیں۔ ان  لیے گئے قرضوں کے  عوض  عوام کو قرضہ  مع انعام کے واپس کیاجاتا ہے ۔ یہ انعام  اگرچہ  ہر  ایک  کو دینا طے  نہیں ہوتا۔ لیکن تمام  انعامی بانڈ  لینے والوں   کے مجموعے  سے طے ہوتا ہے ،انعام کا قرض داروں  کے مجموعے  سے طے ہونا اتنی یقینی بات  ہے کہ انعام  نہ ملنے کی صورت میں انعامی بانڈ کا حامل ہر شخص  قانونی چارہ جوئی کر کے  حکومت کو انعام دینے  پر مجبور  تک کرسکتا ہے ۔

بلکہ عموماً یہ بھی  ہوتا ہے کہ ہر انعامی  بانڈ  لینے والے  کے قرضہ  پر حکومت ، سود  کی ایک  خاص  شرح طے  کردیتی ہے ، لیکن پھر  یہ سود ہر  بانڈ کے حامل  کو دینے کے بجائے قرعہ اندازی  کے ذریعے  جن کے نمبر نکل آئے سب سودی رقم  ان کے درمیان انعام  کے نام سے تقسیم کردی جاتی ہے۔

مذکورہ  تمام حقائق کا نتیجہ   یہ ہوا کہ پرائز بانڈ  پر ملنے   والا انعام  قرض کے بدلے   میں دیاجانے  والا مشروط  نفع ہے  اورا حادیث  اور فقہ  کی رو سے قرض  پر دیاجانے والا مشروط نفع  سود ہے ۔

 مشہور حدیث  ہے: ” کل  قرض  جر  نفعا فھو ربا” ہر وہ  قرضخہ جو مشروط نفع کھینچ کر لائے  وہ سود میں شامل ہے ۔

فی رد المختار  :” (قولہ  کل قرض  جر نفعا حرام)  ای اذا  کان  مشروطا ً کما  علم  مما نقلہ  عن  البحر  عن الخلاصہ، وفی  الذخیرۃ وان لم یکن  النفع  مشروطا فی القرض  فعلی  قول  الکر  خی  لا باس بہ” ( شامی  :4/174)

اپنا تبصرہ بھیجیں