جنید جمشیید کے نعت البمز سننے کا کیا حکم ہے

سوال:   اس مسئلہ کا جواب مطلوب ہے  ۔

جنید جمشید  کے البمز جن میں  نعتوں اور حمدوں کے پس منظر  میں اللہ کا نام  اور ذکر  تو نہیں ہوتا ، البتہ دوسری قسم کی   آوازیں  ہوتی ہیں۔ یہ چیزیں  نہ تو ڈھول باجے   ہوتے ہیں  اور نہ موسیقی   کے آلات  ہوتے ہیں  آواز  کو خوبصورت بنانے  اور کشش  پیدا کرنے  کا  ایک جدید سائنسی  طریقہ ہوتا ہے ۔ مثلا کبھی انسان ہی کی آواز ہوتی ہے  جو ایسے  لگتی ہے کہ گویا دور صحراؤں  اور پہاڑوں  میں بازگشت  کرتی ہوئی آرہی  ہو، کیا  یہ موسیقی   ناجائز موسیقی میں  داخل ہے یا نہیں  ؟ اور اس  کا سننا کیسا ہے  ۔ اور  مولانا اسماعیل ریحان صاحب  کا پچھلے  سال میں  نے روزنامہ   اسلام  میں ایک کالم  پڑاھ  تھا۔ جس میں انھوں نے  جنید جمشید  کے البم خریدنے کی ترغیب  دی ہے  ۔ تو آیا یہ مطلقا جائز ہے  اور ناجائز   ہے تو مطلقا ناجائز  ہے  یا اس میں  کوئی تفصیل  ہے  ۔

 آپکی عین نوازش ہوگی  ۔

 جواب: جنید  جمشید  کے دو البم  ” جلوہ جاناں ” اور  ” محبوب یزداں  ” سنے گئے ۔ اپنے مضامین کے اعتبار سے  ان کی دو قسمیں  کی جاسکتی  ہیں :

1۔بعض  حمد ونعت  کے پس منظر  میں ایک خاص آواز  ایسی محسوس ہوتی  ہے  جو عام گانوں  میں بھی اکثر  پائی جاتی ہے  ۔

ہمارے  خیال میں  یہ آواز ، موسیقی میں استعمال  ہونے  کے باوجود  انفرادی  اعتبار سے  بذات خود  موسیقی  نہیں ، اس  لیے بذات خود  اس کی گنجائش معلوم  ہوتی ہے  ، لیکن  اس زاویہ نظر  سے دیکھا  جائے  کہ جو حضرات  گانا سننے  کے شوقین  ہیں یا رہ چکے ہیں  ان کے لیے   اس میں ایک ایک لذت  بھی ہے ، نیز  یہ موسیقی  نہیں تو موسیقی  کا شبہ  اس میں ضرور ہے ۔

اس لیے گنجائش  کے باوجود  اس قسم  کی حمد ونعت  پڑھنے  ، سننے  سے  بچنا ہی بہتر  ہے ۔

2۔ بعض   حمد ونعت   سادہ  اندازہ  سے پڑھی گئیں   ہیں اور ان کے پس منظر  میں یہ مخصوص آواز نہیں۔  یا تو وہ بالکل  سادہ ہیں یا ان میں  مختلف  آوازوں  کی گونج  اور ایک قسم  کی بازگشت  ہے ۔

 ان کے پڑھنے  سننے  میں کوئی حرج  نہیں  ۔

ہمارا مشورہ  ہے کہ جنید  بھائی  اپنی تمام حمد ونعت  اسی دوسرے  طرز میں پڑھا کریں ۔ کیونکہ  شعبہ  احتراز اور احتیاط  پر عمل  ہی سلامتی  کے راستے  کے زیادہ  قریب ہے ۔

حدیث شریف  میں آتا ہے  :

 عن ابی  الحور  السعدی  قال:  قلت  للحسن  بن  علی  : ” ماحفظت  من رسول اللہ ﷺ قال ؟  “حفظت  من رسول اللہ ﷺ (دع  مایریبک  الی مالا  یریبک  فان  الصدق طمانینۃ، وان   الکذب  ریبۃ ))

(الجماع  للترمذی  : 4/576 کتاب صفۃ القیامۃ  ، دارالفکر  )

 حضرت  ابو حور  سعدی  کہتے ہیں  کہ میں نے حضرت حسن  بن علی  رضی اللہ عنہ سے دریافت  کیا کہ آپ نے  حضور اقدس ﷺ کی کون سی  حدیث یاد کی  ہے  ؟ فرمایا : ”  میں نے حضور  ﷺ کا یہ قول  یاد رکھا  ہے کہ ایسی  چیز  جو تمہیں  شک وشبہ  میں مبتلا  کرے اسے چھوڑ کر وہ  اختیار   کر لو  جو شک وشبہ  میں نہ ڈالے ، کیونکہ  سچائی  کی پہچان  یہ ہے کہ دل اس پر   مطمئن  ہوتا ہے ،  جبکہ جھوٹ   اضطراب  کا نام  ہے ۔۔۔۔۔۔۔ واللہ سبحانہ وتعالیٰ  اعلم

اپنا تبصرہ بھیجیں