تہتر فرقوں میں سے کون سا حق پر ہوگا

سوال: حدیث میں ہے امت محمدیہ تہتر 73 فرقوں بٹ جائینگے اور ان میں سے صرف ایک فرقہ وگروپ ناجی ہونگے باقی جہنمی 

تو میرا سوال یہ ہے کہ کیا ان فرقوں میں اہلحدیث بریلوی و دیوبندی بھی شامل ہے یا نہیں ؟

جواب:حدیث شریف’’وتفترق امتی علی ثلث وسبعین ملۃ الخ‘‘ کی تشریح میں مختلف قول ہیں ،راجح قول کے مطابق اس میں امّت سے امّتِ اجابت مراد ہے یعنی وہ لوگ جو اہلِ قبلہ ہیں اور مسلمان سمجھے جاتے ہیں اور حدیث شریف میں ‘‘کلھم فی النار’’یعنی وہ تمام فرقے دوزخی ہوں گے کے معنی یہ ہوں گے کہ وہ سب اپنے غلط عقائد اور بد اعمالیوں کی بناء پر دوزخ میں داخل کئے جائیں گےلہذا جس کے عقائد اور اعمال اس حد تک مفسد نہیں ہوں گےکہ وہ دائرہ کفر میں آتے ہوں تو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے وہ اپنے گناہوں کی مدت سزا کے بعد دوزخ سے نکال لئے جائیں گے۔


مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح:(ج 2 / ص 58)
ونقل الأبهري أن المراد بالأمة أمة الإجابة عند الأكثر كلهم في النار لأنهم يتعرضون لما يدخلهم النار فكفارهم مرتكبون ما هو سبب في دخولها المؤبدة عليهم ومبتدعتهم مستحقة لدخولها إلا أن يعفو الله عنهم اھ.
وفیہ:وهي الجماعة أي أهل العلم والفقه الذين اجتمعوا على اتباع آثاره عليه الصلاة والسلام في النقير والقطمير ولم يبتدعوا بالتحريف والتغيير إلی آخر القول (ج۱ ص ۳۴۹)
البتہ ان فرقوں میں سے کونسا فرقہ ناجی اور کونسا فرقہ غیر ناجی ہے تو اس میں تفصیل یہ ہے کہ فرقۂ ناجیہ سے مراد وہ مسلمان اہلِ سنت والجماعت ہیں جو عقائد واحکام میں حضراتِ صحابہ کے مسلک پر ہوں اور قرآن کے ساتھ سنّتِ نبویہﷺ کو بھی حجت مانتے ہوں،اور اس پر عمل کرتے ہوں اور دین میں اپنی طرف سے کچھ کمی،زیادتی کرنے والے نہ ہوں اور جو فرقہ اس قسم کے عقائدِ صحیحہ نہ رکھتا ہو وہ غیر ناجی ہے۔
 

وفی المشکوٰۃ:وتفترق أمتي على ثلاث وسبعين ملة كلهم في النار إلا ملة واحدة قالوا ومن هي يا رسول الله قال ما أنا عليه وأصحابي. (۲۹)

جیسا کہ اوپر لکھا جاچکاہے کہ فرقۂ ناجیہ سے مراد امّتِ اجابت ہے یعنی اہلِ قبلہ اور مسلمان اس کامصداق ہیں ،لہذا غیر ناجیہ سے مراد وہ لوگ ہیں جو اہلِ قبلہ اور مسلمان نہیں ہیں،اس لئے فرقہ غیر ناجیہ کافر ہی ہوں گے،جیسے ذکری،آغاخانی،بوہری،منکرین حدیث اور وہ روافضین جن کا کوئی ایک عقیدہ کافرانہ ہو وہ بھی کافر ہیں،مثلاً قرآن کریم میں تحریف کے قائل ہوں، یاحضرت عائشہ صدیقہ پر تہمت کو جائز سمجھتے ہوں،یاحضورﷺکے بعد صدیقِ اکبراور حضرت عمر فاروق اور دیگر صحابۂ کرام کو معاذاللہ مرتد سمجھتے ہوں ،یاحضرت علی کو خدا مانتے ہوں،یا جبرئیل کے وحی لانے میں غلطی کے قائل ہوں ۔
اور جو روافض کوئی عقیدہ کافرانہ نہ رکھتے ہوں بلکہ صرف حضرت علی کو حضراتِ شیخین پر فضلیت دیتے ہوں وہ کافر نہیں۔

وفی رد المحتار :
نعم لا شك في تكفير من قذف السيدة عائشة رضي الله تعالى عنها، أو أنكر صحبة الصديق، أو اعتقد الالوهية في علي، أو أن جبريل غلط في الوحي، أو نحو ذلك من الكفر الصريح المخالف للقرآن. – (ج 4 / ص ۲۳۷)

مذکورہ بالا تفصیل سے معلوم ہوگیا کہ امّتِ اجابت سے مراد مطلقاً فرقۂ ناجیہ ہےاور نجات کادارومدار اعمالِ صالحہ اور عقائدِ صحیحہ پر ہے ،پس مذکورہ فرقے ،بریلوی ، دیوبندی،غیر مقلدین اور اشاعتی چونکہ امّتِ اجابت میں داخل ہیں اس لئے بحیثیت مجموعی یہ سب ناجی شمار ہوں گے،البتہ نجات کی دوقسمیں ہیں :

۱۔نجاتِ اوّلیہ
۲۔ نجاتِ غیر اوّلیہ

نجاتِ اوّلیہ کا مطلب یہ ہے کہ بعض لوگوں کوحساب وکتاب کے بعد ہی سے جہنم سے نجات مل جائیگی۔اور نجاتِ غیر اوّلیہ کا مطلب یہ ہے کہ جہنم میں داخل ہو کر اپنے گناہوں کی مدتِ سزا کےبعد اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے نجات حاصل کریں گے،لہذا اس تفصیل سے یہ بات بخوبی معلوم ہوجاتی ہے کہ مذکورہ بالا فرقہ ناجیہ میں سے بعض لوگ نجاتِ اوّلیہ کے مستحق ہیں اور دیگر بعض نجاتِ غیر اوّلیہ کے مستحق ہیں۔
سنن الترمذي : (5 / 26)
قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ليأتين على أمتي ما أتى على بني إسرائيل حذو النعل بالنعل، حتى إن كان منهم من أتى أمه علانية لكان في أمتي من يصنع ذلك، وإن بني إسرائيل تفرقت على ثنتين وسبعين ملة، وتفترق أمتي على ثلاث وسبعين ملة، كلهم في النار إلا ملة واحدة» ، قالوا: ومن هي يا رسول الله؟ قال: «ما أنا عليه وأصحابي»
جامع الأحاديث :(ج 34 / ص 96المکتبۃ الشاملۃ)
عن جابر بن عبد الله قال : قال رسول الله – صلى الله عليه وسلم – شفاعتى لأهل الكبائر من أمتى قلت ما هذا يا جابر قال نعم يا محمد إنه من زادت حسناته على سيئاته فذاك الذى يدخل الجنة بغير حساب ومن استوت حسناته وسيئاته فذاك الذى يحاسب حسابا يسيرا ثم يدخل الجنة وإنما شفاعة رسول الله – صلى الله عليه وسلم – لمن أوبق نفسه وأثقل ظهره (البيهقى فى البعث ، وابن عساكر).
حاشية السندي على سنن ابن ماجه: (2 / 479دار الجيل بيروت)
(وتفترق أمتي) المراد أمة الإجابة. وهم أهل القبلة. فإن اسم الامة مضافا إليه صلى الله عليه وسلم يتبادر منه أمة الإجابة. والمراد تفرقهم في الأصول والعقائد لا الفروع والعمليات.
حاشية ابن عابدين: (4 / 237دارالفکر بیروت)
أن الرافضي إذا كان يسب الشيخين ويلعنهما فهو كافر، وإن كان يفضل عليا عليهما فهو مبتدع. اهـ.
وهذا لا يستلزم عدم قبول التوبة. على أن الحكم عليه بالكفر مشكل، لما في الاختيار اتفق الأئمة على تضليل أهل البدع أجمع وتخطئتهم وسب أحد من الصحابة وبغضه لا يكون كفرا، لكن يضلل إلخ.
واللہ سبحانہ و تعالی اعلم بالصواب

اپنا تبصرہ بھیجیں