فتویٰ نمبر:4056
سوال: محترم جناب مفتیان کرام!
اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ!
اگر کوٸی اپنے گاٶں سے کراچی اپنے بیٹوں کے گھر آٸے جو کراٸے پر رہتے ہیں اور پندرہ دن سے کم رہنے کی نیت کرے کیا وہ اپنی پوری نماز پڑھے یا قصر ادا کر
نے ہونگے کیا بیٹوں کا گھر اپنا گھر نہیں ہوا۔
والسلام
الجواب حامداو مصلیا
وَعَلَيْكُم السَّلَام وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ!
مذکورہ صورت میں بیٹے کی رہائش گاہ اگر مسافت شرعی پر ہے اوروالدین نے وہاں پندرہ دن سے کم ٹھہرنے کی نیت کی ہے تو وہ قصر نمازیں ادا کرے۔ کیونکہ بالغ بیٹے کےلیے والد کی جائے سکونت اور والد کے لیے بیٹے کی جائے سکونت وطن اصلی نہیں ، لہذا وطن اصلی علیحدہ علیحدہ ہونے کی صورت میں ایک دوسرے کی جائے سکونت میں جانے سے مقیم نہ ہوں گے بلکہ مسافر کے حکم میں ہوں گے
(ماخوذ من فتاوی دارالعلوم دیوبند: ٤/ ٣٢٧ )
”الوطن الاصلی ھو موطن ولادتہ او تاھلہ اوتوطنہ ویبطل بمثلہ اذا لم یبق لہ بالاول اھل وفی الشامی : قولہ او توطنہ ای عزم علی القرار فیہ وعدم الارتحال وان لم یتاھل فلو کان لہ ابوان ببلد غیر مولدہ وھوبالغ ولم یتاھل بہ فلیس ذلک وطنا لہ الا اذا عزم علی القرار فیہ وترک الوطن الذی کان لہ قبلہ شرح منیہ“(الدرالمختار: ٢/ ١٢١)
و اللہ سبحانہ اعلم
✍بقلم : بنت عبدالغفور
قمری تاریخ:٤ رجب ١٤٤٠ھ
عیسوی تاریخ:١١مارچ ٢٠١٩۶
تصحیح وتصویب:مفتی انس عبد الرحیم
ہمارا فیس بک پیج دیکھیے.
فیس بک:
https://m.facebook.com/suffah1/
ہمارا ٹوئیٹر اکاؤنٹ جوائن کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں.
ٹوئیٹراکاؤنٹ لنک
ہماری ویب سائٹ سے وابستہ رہنے کے لیے کلک کریں:
ہمارے یوٹیوب چینل کو سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں: