آمد مہدی اور خروج دجال کا منکر

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

سوال:حضرت مہدی کی آمد اور خوج دجال کے منکر کا کیا حکم ہے؟

سائل:عبد اللہ

اسلام آباد

الجواب باسم مہم بالصواب

ظہورِ مہدیؒ اور خروج دجال کا قرب قیامت میں ہونا،احادیث متواترہ،صحیحہ سے ثابت شدہ مسئلہ ہے۔جس پر امت کا چودہ سو سال سے اجماع چلا آرہا ہے۔اگر کوئی آمدِمہدؒ اور خروج دجال کا انکار کرتا ہے تو نہ صرف یہ کہ وہ احادیث ِ متواترہ صحیحہ کا انکار کرتا ہے؛بلکہ اس پر امت کے چودہ سو سالہ اجماع کا بھی منکر ہے۔اور احادیث متواترہ کا منکر باجماع اہل سنت و جماعت کافر ہے۔

’’عن ام سلمۃ قالت:سمعتُ رسول اللہ ﷺ یقول: المھدی من عترتی من ولد فاطمہ”

(ابی داؤد ج۲ص۱۳۱،کتاب المہدی،جمع الفوائد ص۵۱۲ ج۲حدیث نمبر۹۹۱۴)

ترجمہ:حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا کہ مہدی میری آل سے ہوگا۔ یعنی فاطمہؓ کی اولاد سے ہوگا۔

“عن علی عن النبیّﷺ قال: لو لم یبق من الدھر الایوماً لبعث اﷲ رجلا من اھل بیتی یملؤھا عدلا کماملئت جورا”

(سنن ابی داؤود،جلد 2/رقم حدیث 880)

ترجمہ:حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور پاک ﷺ نے فرمایا :اگر زمانے(کی عمر)میں سے ایک دن بھی باقی بچ جائے گا تو پھر بھی اللہ تعالی میرے اہل بیت مین سے ایک شخص کو بھیجے گا جو زمین کو انصاف سے اس طرح بھر دے گا جیسے وہ ظلم و جور سے بھری ہوئی تھی۔

“عن قتادۃ رضی اللہ عنہ قال: سمعتُ انس بن مالک یحدث عن النبیﷺ انّہ قال:ما بُعث نبی الّا قد انذر امتہٗ الدّجال الاعور الکذّاب،الا انّہ اعور و انّ ربکم لیس و انّ بین عینہ مکتوباً کافر۔”

(سنن ابی داؤود جلد2،رقم حدیث 911)

ترجمہ:حضرت قتادہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا :کوئی نبی نہیں بھیجا گیا لیکن اس نے اپنی قوم کو دجال سے ڈرایا جو کانا ہے اور بہت بڑا جھوٹا ہے ۔تم لوگ باخبر رہو کہ نلا شبہ وہ کانا ہے اور تمہارا پروردگار کانا نہیں ۔اور اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان یعنی اس کی پیشانی پر کافر لکھا ہوا ہے۔

(دار الافتاء ،دار العلوم دیوبند،س ط 2025)

“۔۔۔قال العلامۃ الشوکانی فی کتابہ (التوضیح)ان الاحادیث الواردۃ فی المہدی المنتظر متواترۃ والاحادیث الواردۃ فی الدجال متواترۃ والاحادیث الواردۃ فی نزول عیسیٰ متواترۃ۔نیز احادیث متواترہ،صحیحہ اور ثابۃ کا منکر اور ان کی حجیت کو تسلیم نہ کرنے والا باجماع اہل سنت و جماعت دائرہ اسلام سے خارج ہے۔”من انکر المتواترۃ فقد کفر و من انکر المشہور یکفر عند البعض الخ”(الھندیہ،کتاب السیر الباب التاسع احکام المرتدین ما یتعلق بالانبیآء)۔۔۔۔الحاصل مذکورہ فی السؤال عقائد کا حامل شخص باجماع اہل سنت وجماعت کافر ہے دائرہ اسلام سے خارج ہے۔”

(فتاوی حقانیہ 1/166)

“قیامت کے قریب امام مہدی کا آنا صحیح احادیث اور اجماع امت ست ثابت شدہ مسئلہ ہے۔اس سے انکار صحیح احادیث اور اجماع سے انکار کے مترادف ہے؛جبکہ احادیث سے انکار کفر ہے۔”

حاصل کلام یہ ہے کہ جو شخص آمد مہدی اور خروج دجال کا انکار کرتا ہے تو اس کے اس انکار سے ان تمام احادیثِ صحیحہ اور متوارہ کا انکار لازم آتا ہے جو ان کے بارے میں وارد ہوئی ہیں۔جس کی بنا پر اس کو منکرین حدیث میں سے شمار کیا جائے گا اور اس پر وہی حکم لگایا جائے گا جو منکرینِ حدیث کا ہے۔اور منکرین حدیث باجماع اہل سنت و جماعت کافر ہیں۔

واللہ الموفق

بنت ممتاز

صفہ اسلامک ریسرچ سینٹر،کراچی

اپنا تبصرہ بھیجیں