افغان مہاجرین کی اشیاء کم داموں میں خریدنا

سوال:آج کل افغان مہاجرین افغانستان جاتے ہیں اور مجبوری کی وجہ سے اپنے گھروں، گاڑیوں اور دیگر سامان فروخت کرتے ہیں ،اور خریدنے والا ان کی مجبوری سے فائدہ اٹھا کر مہنگی قیمت والی چیز بہت سستی قیمت پر اُن سے خریدتے ہیں ۔

آنجناب سے پوچھنا یہ ہے کہ اس طرح مجبوری سے فائدہ اُٹھاناکیسا ہے؟نیز اس طرح اقدام کرنا بیچ پر اثر انداز ہوتا ہے کہ نہیں ؟

الجواب حامیدا و مصلیا!

صورت مسئولہ میں افغانستان کے مہاجرین کی مجبوری سے غلط فائدہ اُٹھا کر مہنگی ترین چیز ستی قیمت پر خرید نا مناسب نہیں ہے۔ البتہ بیع کراہت کے ساتھ درست ہوگی۔

لما فی بذل المجہود:2/252۔ط خلیلیہ

والوجه الاخر ان يضطر الى البيع لدين يركبه أو مؤنة ترهقه فیتبع ما فى یدہ بالوكس من اجل الضرورة فهنا سبيله في حق الدين والمروة ان لا يباع على هذا الوجه وان لا يقتات عليه بماله ولكن یعان ویقرض ويست مھل لہ الى الميسرة حتى يكون في ذلك بلاغ فان عقد البيع مع الضرورة۔

على هذ الوجه جاز في الحكم ولا تنفسح . … الا ان عامة اهل اللعلم قد كرهو هذاالبیع۔۔۔۔ وكذا في الشراء منه مثال لبيع المضطر أي بان اضطر الى بيع شيء من ماله ولم يرض المشترى الا بشرائه بدون ثمن المثل بغبن فاحش –

وفي الشامية:5/95 ط ایچ ایم سعید کمپنی:

وكذلك في الشراء منه …… أى من المضطر مثال لبيع المضطر أى بأن المضطر الى بيع شيء من ماله ولم يرضى المشترى الابشرائه بدون ثمن المثل بغين فاحش و مثاله ما ألزمه القاضي ببيع ماله لايغاء دينه . أو الزمر الزمى بیع مصحف أو عبد مسلم ونحو ذلك لكن سيذكر المصنف فى الاكراه لو صاد ر السلطان ولد يغبن بیع مالہ فباع صح۔

(واللہ تعالیٰ اعلم)

اپنا تبصرہ بھیجیں