عقیدہ حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم

الجواب حامدا ومصلیا

حضور ﷺ اور تمام انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام کے بارے میں اکابر دیوبند کا مسلک یہ ہے کہ وفات کے بعد اپنی قبروں میں حیات ہیں،اور ان کے ابدان مقدسہ بعینہا محفوظ ہیں ،لیکن یہ حیات برزخی عام مسلمانوں کے مقابلے میں زیادہ قوی ہے ،اس میں روح کا رشتہ جسد کے ساتھ اتنا زیادہ قوی  رہتا ہے کہ اسے حیات دنیویہ کے  قریب کہا جا سکتا ہے، اور اسکی بناء پر ان پر مطلقاً احیاء کا اطلاق کیا جاتا ہے، اسی لئے انبیاء علیہم السلام کی نہ میراث تقسیم ہوتی ہے، نہ انکی ازواج مطہرات سے بعد میں کوئی نکاح کر سکتا، اب یہ قوت کس درجہ کی ہے اس کا صحیح علم اللہ ہی کو ہے۔

واضح رہے کہ ان مسائل پر تدقیقات میں پڑنا درست نہیں ہے ان سوالوں کے جواب پر دین کا کوئی عملی حکم موقوف نہیں ہے، نہ انکی تحقیق کا ہمیں مکلف کیا گیا ہے لہذا اپنے اوقات کو ان مسائل کو معلوم کرنے میں صرف کرنا چاہئے جن کا براہ راست تعلق عملی زندگی سے ہے۔

(البقرۃ۱۵۴)

“ولا تقولوا لمن یقتل فی سبیل اﷲ أموات بل أحیاء ولکن لاتشعرون”

(آل عمران۱۶۹)

“بل أحیاء عند ربھم یرزقون، فرحین بما اٰتاھم اﷲ من فضلہ”

“وإذا ثبت أنهم أحياء من حيث النقل فإنه يقويه من حيث النظر كون الشهداء أحياء بنص القرآن والأنبياء أفضل من الشهداء” فتح الباري لابن حجر (6/ 488)

مجمع الزوائد ومنبع الفوائد (8/ 211)

“عن أنس بن مالك قال: قال رسول الله – صلى الله عليه وسلم -: «الأنبياء أحياء في قبورهم يصلون» رواه أبو يعلى والبزار، ورجال أبي يعلى ثقات”

الحاوي للفتاوي (2/ 178)

“فأقول: حياة النبي صلى الله عليه وسلم في قبره هو وسائر الأنبياء معلومة عندنا علما قطعيا لما قام عندنا من الأدلة في ذلك وتواترت به الأخبار”

القول البدیع فی الصلوۃ علی الحبیب الشفیع (167)قال العلامۃ  السخاویؒ

“نحن نؤمن ونصدق بانہ صلی اللہ علیہ وسلم حی یرزق فی قبرہ وان جسدہ الشریف لا تاکلہ الارض والاجماع علی ھذا”

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 151)

“فقد أفاد في الدر المنتقى أنه خلاف الإجماع. قلت: وأما ما نسب إلى الإمام الأشعري إمام أهل السنة والجماعة من إنكار ثبوتها بعد الموت. فهو افتراء وبهتان والمصرح به في كتبه وكتب أصحابه خلاف ما نسب إليه بعض أعدائه؛ لأن الأنبياء – عليهم الصلاة والسلام – أحياء في قبورهم وقد أقام النكير على افتراء ذلك الإمام العارف أبو القاسم القشيريؒ”

المھند علی المفند للعلامۃ المحدث خلیل احمد السہارنپوری-السوال الخامس -ص ۲۱،۲۲،ط: دار الاشاعت کراچی

’’السوال الخامس ما قولکم فی حیوٰ ۃ النبی علیہ الصلوٰۃ والسلام فی قبرہ الشریف، ھل ذلک أمر مخصوص بہ أم مثل سائر المؤمنین رحمۃ اﷲ علیھم حیوٰۃ برزخیۃ؟

الجواب : عندنا وعند مشائخنا حیاۃ حضرۃ الرسالۃ صلی اﷲعلیہ وسلم حی فی قبرہ الشریف وحیوٰتہ صلی اﷲعلیہ وسلم دنیویۃ من غیر تکلیف وھی مختصۃ بہ صلی اﷲعلیہ وسلم وبجمیع الأنبیاء صلوات اﷲ علیھم والشھداء لابرزخیۃ کماھی حاصلۃ لسائر المؤمنین بل لجمیع الناس کما نص علیہ العلامۃ السیوطی فی رسالتہأنباہ الاذکیاء بحیوۃ الانبیاء‘‘ حیث قال: قال الشیخ تقی الدین السبکی: حیوٰۃ الأنبیاء والشھداء فی القبر کحیاتھم فی الدنیا ویشھد لہ صلوٰۃ موسی علیہ السلام فی قبرہ فان الصلوٰۃ تستدعی جسداً حیاً إلی آخر ماقال۔ فثبت بھذا أن حیوٰ تہ دنیویۃ برزخیۃ لکونھا فی عالم البرزخ”

واللہ اعلم بالصواب

حنظلہ عمیر بن عمیر رشید

نور محمد ریسرچ سینٹر

دھوراجی کراچی

۱۸/۵/۱۴۴۱ھ

2019/1/13ء

اپنا تبصرہ بھیجیں