بینک کی جاب کاحکم

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ۔

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے کے بارے میں :ایک لڑکی کا رشتہ ایسے لڑکے سے طے کیا جارہا ہے جس کے والد بینک(state bank) میں جاب کرتے ہیں اور لڑکے اور اس کے والد کی تنخواہوں سے گھر کا خرچہ اور اخراجات چلتے ہیں ،لڑکے کی تنخواہ حلال ہے (انجینئر ہے اور Hyundai میں اسسٹنٹ مینیجر ہے۔

لڑکی کے والد ین کو سمجھتے ہیں ،لیکن وہ اس لڑکے سے اپنی بیٹی کی نسبت اس لیے طے کررہے ہیں،کیونکہ بیٹی کی عمر 25 سال ہوگئی ہے اور والد کی تنخواہ کے علاوہ لڑکا ہر لحاظ سے مناسب ہے،سوال یہ ہے کہ لڑکی اس رشتے سے منع کررہی ہے ،کہ شادی کے بعد اگر اس نے سسر کے پیسوں کے استعمال سے منع کیا تو مسائل پیدا ہونگے،وہ یہی بات کہیں گے کہ ہمارا ذریعۂ آمدنی تو معلوم تھا۔اب کیا کرنا چاہیے؟

جواب:

بطور تمہید پہلے تو یہ بات جان لیجیے کہ بینک کی ہر ملازمت ناجائز نہیں ہوتی بلکہ وہ ناجائز ہوتی ہے جس میں سودی امور سے تعلق ہو یعنی سودی حساب کتاب لکھنا،سودی دستاویزات کی تیاری،سودی معاملات میں گواہ وغیرہ بننا یا ان تمام امور میں معاونت کرنا۔البتہ اگر بینک میں ایسی ملازمت ہے جس میں سودی امور سے نہ براہ راست تعلق ہے نہ بطریق معاونت تو پھر اس ملازمت کی گنجائش ہے ،جیسےگارڈز یا ڈرائیور کی ملازمت ۔

اب اصل سوال کا جواب یہ ہے کہ اگر والد کی ملازمت کا تعلق دوسری قسم (جائز امور) سے ہے تب تو اس رشتے میں کوئی قباحت نہیں لیکن اگر پہلی قسم(سودی امور سے تعلقات)سے ہے تب بھی چونکہ لڑکے کی تنخواہ حلال ہے ،اور باقی لحاظ سے بھی لڑکا مناسب ہے نیز گھر کے اخراجات میں لڑکےکی تنخواہ کا بھی عمل دخل ہوگا توذریعۂ آمدنی حلال و حرام دونوں پر مشتمل ہوا۔لہذا یہ رشتہ کرنا فی نفسہٖ جائز ہے ،بعد میں برابر انہیں حکمت کے ساتھ ،فضائل سنا کر حرام سے بچنے کی ترغیب بھی دیتے رہیں۔ (یا اپنے شوہر کی آمدنی میں ہی گزارا کرنے کی صورت بھی ممکن ہوسکتی ہے)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

“عن جابر قال: لعن رسول اﷲ صلی اﷲ علیه وسلم آکل الربا، وموکله، وکاتبه، وشاهدیه، وقال: هم سواء”. (الصحيح لمسلم، با ب لعن آکل الربا، ومؤکله، النسخة الهندیة، ۲/۲۷)

(۲)آكل الربا وكاسب الحرام أهدى إليه أو أضافه وغالب ماله حرام لا يقبل، ولايأكل ما لم يخبره أن ذلك المال أصله حلال ورثه أو استقرضه، وإن كان غالب ماله حلالاً لا بأس بقبول هديته والأكل منها، كذا في الملتقط”. (فتاوی عالمگیری:۵/ ۳۴۳، الباب الثانی عشر فی الھدایا والضیافات، رشیدیہ)

فقط واللہ اعلم

اپنا تبصرہ بھیجیں