بہن بھائی کاایک دوسرے کوصدقہ دینےکاحکم

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

بہن بھائی ایک دوسرے کو صدقہ دے سکتے ہیں؟

یعنی اگر بھائی اپنی بہن کو صدقے کے پیسے دے کہ کسی ضرورت مند کو دے دے اور اس مہینے بہن کا ہاتھ بھی تھوڑا تنگ ہو (ویسے وہ تنگدست نہ ہو) لیکن اسکو اپنی کسی جائز حاجت کے لئے ادھار لینا پڑ رہا ہو تو کیا وہ کسی سے ادھار لینے کے بجائے صدقے کے پیسے استعمال کر سکتی ہے بھائی کو علم میں لائے بغیر؟؟

الجواب باسم ملہم الصواب

یوں تو بہن بھائی ایکدوسرے کو صدقہ دے سکتے ہیں، مگر مذکورہ بالا صورت میں بھائی نے بہن کو پیسے دے کر گویا کہ وکیل بنایا ہے، لہذا اسکی اجازت کےبغیر یہ پیسا بہن نہیں لے سکتی، ہاں اگر بھائی نے اسے اجازت دی ہو کہ آپ خود بھی استعمال کرسکتی ہیں یا مکمل اختیار دیا ہو کہ آپ جہاں چاہیں جیسے چاہیں خرچ کردیں تو اس صورت میں بہن خود بھی لےسکتی ہے.

فتاوی شامی میں ہے:

“ولو خلط زكاة موكليه ضمن وكان متبرعًا إلا إذا وكله الفقراء وللوكيل أن يدفع لولده الفقير وزوجته لا لنفسه إلا إذا قال: ربها ضعها حيث شئت.

 اور الموسوعہ الفقہیہ میں لکھا ہے:

“الوكيل أثناء قيامه بتنفيذ الوكالة مقيد بما يقضي به الشرع من عدم الإضرار بالموكل؛ لقول رسول الله صلى الله عليه وسلم: لا ضرر ولا ضرار، ومقيد بما يأمره به موكله، كما أنه مقيد بما يقضي به العرف إذا كانت الوكالة مطلقة عن القيود، فإذا خالف كان متعديًا ووجب الضمان”. (45/ 87، الوکالۃ ، ضمان الوكيل ما تحت يده من أموال، ط: طبع الوزارة) ..

واللہ اعلم بالصواب

اپنا تبصرہ بھیجیں