بزرگوں کی قبروں پردعاکی درخواست کرنا

سوال:انتقال کرجانے والے بزرگوں کی قبروں پر جاکر ان سے دعا کی درخواست کرنا اور استمداد کرنا کیسا ہے؟

سائل:عمر محمود

الجواب حامدا ومصلیا

بزرگوں کو وسیلہ بنانے کے بجائے براہ راست انہی سے حاجات مانگنا  اور ان کو مشکل کشا سمجھنا شرک ہے ۔ البتہ جو اہل اللہ  دنیا سے گزر گئے  ان کی قبر پر جاکران سے دعا کی درخواست کرنا  کہ وہ اللہ تعالی سے اس کے لیے دعا کریں۔ یہ مسئلہ اختلافی ہے  سماع موتی کے قائل  مشایخ   ،صرف اہل بصیرت افراد کو اس کی گنجائش  دیتے ہیں ۔ اور  جوسماع موتی کے قائل نہیں ان کے نزدیک سرے سے اس کا  وجود نہیں ۔ 

سفارش کے ذریعہ مدد طلب کرنے)کشف قبور یا روحانی فیض کے حصول )کی کوئی اصل کتابوں میں موجود نہیں  لیکن خواص  کےلئے استمداد اس شرط کے ساتھ  جائز ہےکہ  صاحب قبر کے بارے میں شرکیہ عقائد نہ ہوں اور کسی کے تجربہ سے ایسی ہیئت اختیار کرنے سے فیض حاصل بھی ہوتا ہو ،لیکن اگراستمدادسے  مراد  ان سے مدد مانگنا یا انہیں سفارشی بنانا ہے تو یہ شرک ہےالبتہ عام آدمیوں کیلئے اس سے ہر صورت اجتناب کرنا بہتر ہے تاکہ عقائد خراب نہ ہوں۔

مشكاة المصابيح (3/ 1459)

وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: كُنْتُ خَلْفَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا فَقَالَ: «يَا غُلَامُ احْفَظِ اللَّهَ يَحْفَظْكَ احْفَظِ اللَّهَ تَجِدْهُ تُجَاهَكَ وَإِذَا سَأَلْتَ فَاسْأَلِ اللَّهَ وَإِذَا اسْتَعَنْتَ فَاسْتَعِنْ بِاللَّهِ وَاعْلَمْ أَنَّ الْأُمَّةَ لَوِ اجْتَمَعَتْ عَلَى أَنْ يَنْفَعُوكَ بِشَيْءٍ لَمْ يَنْفَعُوكَ إِلَّا بِشَيْءٍ قَدْ كَتَبَهُ اللَّهُ لَكَ وَلَوِ اجْتَمَعُوا عَلَى أَنْ يَضُرُّوكَ بِشَيْءٍلَمْ يَضُرُّوكَ إِلَّا بِشَيْءٍ قَدْ كَتَبَهُ اللَّهُ عَلَيْكَ رُفِعَتِ الأقلام وجفَّت الصُّحُف» رَوَاهُ أَحْمد وَالتِّرْمِذِيّ

وفی المهند علی المفند: ۴۱   تحت عنوان “السوال الحادی عشر”

واما الاستفادة من روحانیة المشایخ الاجلة ووصول الفیوض الباطنیة من صدورهم او قبورهم فیصح علی الطریقة المعروفة فی اهلها وخواصها لا بما هو شائع فی العوام۔

فتاوی عثمانی میں ہے :  ۱/۴۱۱

کشف قبور کوئی  امر محال نہیں ،بعض اللہ کے بندوں کو اللہ کی طرف سے یہ ملکہ دے دیا جاتا ہے ،اگر کوئی اس کا قائل ہو تو مضائقہ نہیں۔

ما فی الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 55)

ومما روي من تأدبه معه أنه(الامام الشافعی)قال: إني لأتبرك بأبي حنيفة وأجيء إلى قبره، فإذا عرضت لي حاجة صليت ركعتين وسألت الله تعالى عند قبره فتقضى سريعا

فتاوی دار العلوم دیوبند میں ہے: 5/ 299

“ثابت سنت اور طریق سلف یہ ہے کہ زیارت قبو رکے وقت دعاء للاموات اور ایصال ثواب حسنات بسوئے اہل قبور کرے ۔ نہ یہ کہ خود ان صاحب قبور سے دعاء کو کہے کہ میرے لئے دعا کرو یا کہے کہ میرا فلاں کام  کردو”۔

نجم الفتاوی میں ہے: ۱/۳۴۰

“سورۃ الم نشرح پڑھ کر بزرگوں کی قبر سے فیض حاصل کرنے کی کوئی اصل مستند کتابوں میں تلاش بسیار کے باوجود ہمیں نہ مل سکی۔ البتہ فی نفسہٖ اولیاء اللہ کی قبور سے فیوضات کا حاصل ہونا ممکن ہے جیسا کہ بعض بزرگوں سے منقول بھی ہے چنانچہ اگر صاحب قبر کے بارے میں شرکیہ عقائد نہ ہوں اور کسی کے تجربہ سے ایسی ہیئت اختیار کرنے سے فیض حاصل بھی ہوتا ہو تو ان حضرات کیلئے یہ صورت اختیار کرنا جائز ہے، لیکن عام آدمیوں کیلئے اس سے اجتناب کرنا بہتر ہے تاکہ عقائد خراب نہ ہوں”۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔واللہ اعلم  بالصواب

کتبہ:محمد عثمان غفرلہ ولوالدیہ

نور محمد ریسرچ سینٹر

دھوراجی کراچی

۲۴ رجب۱۴۴۱

19مارچ2020

اپنا تبصرہ بھیجیں