بیت السلام میں اساتذہ کی تقرری

السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکا تہ!

انتظامیہ بیت السلام نے آپ سے اس سوال نامہ سے قبل کچھ ضوابط کے بارے میں سوال کیا تھا وہ اور اس کا جواب ساتھ لف ہے۔

آپ نے جواب میں جو رہنمائی فرمائی تھی ،اس کی روشنی میں ادارے نے اپنے ضوابط میں کچھ ترمیمات کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جن کی بابت آپ حضرات سے شرعی رہنمائی مطلوب ہے ۔

بطور ِ تمہید یہ بات عرض کرنا چاہتے ہیں کہ ادارہ اپنے اساتذہ کو مختلف قسم کی مراعات دیتا ہے جن کی مختصر تفصیل درج ذیل ہے:

1) گھر : اساتذہ کو تین سال کا عرصہ پورا ہونے پر ادارے کی صوابدید پر گھر (دو کمرے ،بیٹھک اور لاؤنج پر مشتمل )الاٹ کیا جاتا ہے جس کا کوئی کرایہ وصول نہیں کیا جاتا اور جو استاد یہ گھر نہ لینا چاہیں توان کو 3000 روپے بطورِ الاؤنس کے دیے جاتے ہیں ۔

2) بجلی: اساتذہ کرام کےلیے بجلی کا استعمال بھی مفت ہے، بغیر عوض کے گھروں اور رہائشی کمروں (دارالاقامہ میں )بجلی فراہم کی کی جاتی ہے ۔واضح رہے کہ ادارے کے شہر سے دور ہونے کی بناء پر بجلی اکثر اوقات جنریٹر سے پیدا کی جاتی ہے، جس میں ادارے کا مہانہ تقریباً10سے 12لاکھ روپیہ صرف ہوتا ہے ۔

3) پانی: شہر سے دوری کی بناء پر پانی کی فراہمی (آراوپلانٹ اور پانی کے ٹینکروں کی مد میں )پر بھی کافی لاگت آتی ہےاور یہ بھی اساتذہ کے گھروں میں مفت فراہم کیا جاتا ہے ۔

4) علاج و معالجہ: تمام اساتذہ کرام کے لیے اور ان کے اصول و فروغ کے لیے ادارے کی جانب سے مفت علاج و معالجہ کی سہولت بھی دستیاب ہے ۔ادارے میں بھی روزانہ ڈاکٹر صاحب تشریف لاتے ہیں ،اور دوائیں بھی جامعہ میں موجود کلینک سے مفت دستیاب ہوتی ہیں ۔اس کے لیے علاوہ شہر کے ایک اچھے ہسپتال (جہاں تقریباًچھوٹا بڑا ہر طرح کا علاج ہوجاتا ہے)سے بھی علاج کرانے کی سہولت موجود ہے ۔

5) ٹرانسپورٹ: کچھ اساتذہ روزانہ گھر آتے جاتے ہیں ،ان کے لیے روز ایک ہائی ایس گلشن ِ حدید سے جامعہ اساتذہ کو صبح لاتی اور شام کو چھوڑتی ہے ۔جبکہ وہ اساتذہ جو جامعہ میں بمع اہل و عیال مقیم ہیں ان کے لیے دو گاڑیاں موجود ہیں ،جو ادارے کے کام کے علاوہ ان کو شہر لانے لے جا نے کا کام کرتے ہیں ۔اس کے عوض میں ادارہ اساتذہ سے ایندھن کے چوتھائی حصے کا عوض وصول کرتا ہے اگر واپسی 4گھنٹے کے اندر ہو، ورنہ پورے ایندھن کی رقم وصول کی جاتی ہے ،جو کہ پبلک ٹرانسپورٹ سے بہت سستی پڑتی ہے ۔

6) کھانا: (الف) ایک فردکا مفت کھانا : استاد محترم کا اپنا کھانا تینوں وقت کا مفت ہے ،اور جامعہ میں مقیم اساتذہ یہ کھانا اپنے گھر منگوا کر بھی استعمال کر سکتے ہیں ۔

(ب) بقیہ افراد کا کھانا : اس کے علاوہ وہ افراد جو مستقل جامعہ میں رہتے ہیں ،مثلاً استاد محترم کی اہلیہ یا والدین وغیرہ ،ان کے لیے پورے مہینےکا تینوں وقت کا کھانا صرف 1000روپے فی کھانےکی ادائیگی سے وصول کیا جاسکتاہے یعنی 1000روپے سے ایک فرد کا تین وقت کا کھانا جاری کرایا جاسکتا ہے۔

(د) باقی مہمانوں کی آمد کی صورت میں اگر عارضی طور پر کھانا لینے کی ضرورت پیش آئے تو اس کے الگ سے ریٹ مقرر ہیں لیکن وہ بھی بازار سے بہت کم ہیں ۔

7) 36 لاکھ کا الاؤنس: ادارہ اساتذہ کو ہر 5سال بعد کچھ رقم بطور الاؤنس دیتا ہے جس کی تفصیل یہ ہے:

1: 5 سال بعد1لاکھ۔

2: 10سال بعد2لاکھ۔

3: 15سال بعد3لاکھ۔

4: 20سال بعد 4لاکھ۔

5: 25سال بعد 5لاکھ۔

6: 30سال بعد6لاکھ۔

7: 35سال بعد 7لاکھ۔

8: 40سال بعد 8لاکھ۔

کل عرصہ: 40سال کل رقم :36 لاکھ

واضح رہے کہ فی الحال تو اسی پر عمل درآمد کیا جاتا ہے تاہم اس الاؤنس کا اجراء جامعہ کی استطاعت پر موقوف ہے۔

اس کے علاوہ ادارہ اپنے کئی اساتذہ کو حج اور بعض کو عمرہ بھی کروا چکا ہے لیکن چونکہ وہ معاملہ ادارے کی صوابدید پر ہے اس لیے اسے مراعات میں شامل نہیں کیا ہے ۔

آپ کے جواب کی روشنی میں (اور ان تمام مراعات کو مد ِنظر رکھتے ہوئے )ادارہ درج ذیل امور طے کرنا چاہتا ہے ۔اگر ان میں شرعی لحاظ سے کوئی خرابی نہیں ہوگی تو آپ کا جواب آنے کے بعد ان شاء اللہ لاگو کیا جائے گا ۔

1) تمام اساتذہ کرام کو اختیا ر دیا جائے کہ وہ چاہیں تو اضافی ذمہ داریوں کا الاؤنس (عرف اور قانون کے مطابق)وصول فرمالیں ، جیسا کہ آپ حضرات نے تجویز فرمایا ہے ۔اس صورت میں ادارہ ان کو جو مراعات دے رہا ہے وہ نہیں دی جائیں گی بلکہ عرف کے مطابق ہر چیز کا عوض اور کرایہ وغیرہ طے کیا جائے گا جو اساتذہ کو ادا کرنا ہوگا۔

2) اگر وہ چاہیں تو یہ مراعات بالتفصیل السابق لیتے رہیں اور انہیں مراعات کو اصافی ذمہ داریوں کا الاؤنس سمجھ لیں ۔اس صورت میں ادارہ الگ سے کوئی الاؤنس جاری نہیں کرے گا۔

یہاں یہ بات دوبارہ واضح کرنا مناسب معلوم ہوتاہے کہ نگرانیوں کی تقسیم میں انتظامیہ اس بات کی حتی الوسع پوری کوشش کرتی ہے کہ سب اساتذہ کرام میں برابر ی رہے ،ایسا نہ ہو کہ کسی ایک پر سارا بوجھ ڈال دیا جائے اور دوسرا بالکل فارغ ہو۔

آنجناب کے جواب کے منتظر

منجانب:محمد نعمان بنظم جامع

انتظامیہ بیت السلام لنک روڈ ،کراچی

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب حامدا و مصلیا

تمہید کے طور پر واضح ہو کہ سوال میں مذکورہ اساتذہ کے لیے تنخواہ کے علاوہ جن سہولیات کا انتظام کیا جاتا ہے وہ دو طرح کی ہیں۔

1) جو محض تبرعات ہیں،ان کو تنخواہ کا حصہ قرار دینا درست نہیں،جیسا کہ رہائش کے لیے گھر فراہم کرنا ،علاج و معالجہ کی سہولت وغیرہ۔

2) جس کو تنخواہ کا حصہ بھی قرار دیا جاسکتا ہے، جیسا کہ کھانا ہے اورعام طور مدرسین کے تقرر کا معاملہ شرعاً اجارہ کا معاملہ ہے اور عقدِ اجارہ میں درج ذیل امور کا لحاظ رکھنا ضروری ہے۔

الف: معقود علیہ معلوم اور متعین ہو۔

ب: اجرت معلوم اور متعین ہو۔

ج: اجارہ کا وقت متعین ہو اور طے شدہ اوقات کے علاوہ میں اس کی صریح رضامندی کے بغیر اس کے فرائض منصبی سے زائد کوئی ذمہ داری عائد نہ کی جائے ۔

1) مذکورہ بالا اصولوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے سوال میں ذکر کردہ جو سہولیات اساتذہ کو دی جاتی ہیں وہ عرف میں محض تبرع اورعاریت سمجھی جاتی ہیں جو کہ ایک قسم کا عرفی حق بن گیا ہے لہذا اساتذہ کے لیے گھر اور الاؤنس دیا جاسکتا ہے البتہ اس کے لیے کوئی مناسب ضابطہ وضع کرنا مناسب ہے جس کے مطابق یہ سہولت اساتذہ کو دی جاسکے ۔

2) اساتذہ کے گھر چونکہ متفاوت ہوتے ہیں ۔بعض کے گھر کے افراد کم ہوتے ہیں اور بعض کے زیادہ اس اعتبار سے ان کے گیس اور بجلی کا استعمال بھی متفاوت ہو سکتا ہے لہذا اس کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ اساتذہ میں سے ہر ایک کی گیس اور بجلی وغیرہ کا الگ کا میٹر لگایا جائے اور ہر ایک کے استعمال شدہ یونٹ کے بقدر اس سے خرچہ وصول کیا جائے اور اس کے بدلے ان کی تنخواہ میں اضافہ کر دیا جائے یا ایک مقررہ حد(بجلی گیس کے اتنے یونٹ ) تک کے استعمال کا حق ان مدرسین کو بلامعاوضہ کے دیا جائے،البتہ مقررہ مقدار سے زیادہ کے استعمال کا ان سے معاوضہ لیا جائے تاکہ وقف کا نقصان نہ ہو ۔

3) معروف (مقررہ )مقدار میں اساتذہ کو بلا عوض پانی فراہم کرنا بھی چونکہ متعارف ہے لہذا معروف مقدار کی حد تک بلاعوض پانی فراہم کرنا بالکل جائز ہے البتہ اگر اس مقدار سے زیادہ پانی استعمال کیا جائے تو اس کا عوض لیا جاسکتا ہے ۔

4) جامعہ کی طرف سے یہ اساتذہ کے لیے ایک تبرع ہے اور عرف کے بھی مطابق ہے لہذا اسے جاری رکھنا چاہیے ۔

5) یہ بھی اساتذہ کے لیے مدرسے کی طرف سے سہولت ہے ، لہذا سوال میں ذکر کردہ طریقے پر عمل کرنا بھی بہتر ہے ۔

6) کھانے کے بارے میں یہ بات ملحوظ رہے کہ مدرسے میں راشن (آٹا،گھی،گوشت وغیرہ ) عام طور سے مستحق طلبہ کے لیے دیا جاتا ہے لہٰذا جو طلبہ مستطیع ہوں ان کے لیے اور مدرسہ کے دیگر عملہ (اساتذہ،خدام وغیرہ) کے لیے بلاعوض (مفت)اس کا استعمال درست نہیں ہے البتہ کھانے کی قیمت یعنی اس کے ثمنِ مثل یا کم از کم اس قیمت پر جو اس کی لاگت آئی ہے ،اتنی قیمت لے کر قیمتاً انہیں کھانا فراہم کیا جاسکتاہے ۔

7) سوا ل میں ذکر کردہ تفصیل کے مطابق اساتذہ کو مخصوص رقم دینا یا ان کو حج اور عمرہ کرا نا بھی تبرع ہے ۔

اب تک ہر ایک شق کا الگ جواب لکھا گیا ہے ۔ذیل میں آپ کے ذکر کردہ دو سوالوں کے جوابات لکھے جاتے ہیں:

1) سوال میں ذکر کردہ دونوں اختیارات تقرر نامہ میں درج کروا لیے جائیں اور فرائض منصبی کے ساتھ ساتھ اجمالی طور پر اضافی ذمہ داریوں کا بھی ذکر کیا جائے اور ان اضافی ذمہ داریوں پر جو سہولیات فراہم کی جائیں گی ان کی تفصیل بھی ذکر کی جائے اور مدرس کے سامنے دونوں اختیارات رکھ دیے جائیں، تاکہ کوئی چیز مجہول نہ رہے، اب جو اساتذہ اضافی ذمہ داریاں دلی خوشی کے ساتھ قبول کرنے کے لیے تیار ہوں ،تو ان کے ساتھ مذکورہ معاملہ کیا جاسکتا ہے اور جب باہمی رضا مندی کے ساتھ مذکورہ معاملہ طے ہوجائےتو ان کو اضافی ذمہ داری (اصل تنخواہ کے علاوہ )اضافی الاؤنس کے ساتھ سپرد کرنا بھی شرعا ً درست ہوگا ۔

2) سابقہ تصیل کی روشنی میں جو چیزیں تبرعات کے قبیل سے ہیں انہیں ایک مقررہ حد تک اضافی ذمہ داریوں کا عوض بنایا جاسکتا ہے البتہ ذمہ داریوں کے ساتھ اس کے عوض کی وضاحت بھی ضروری ہے تاکہ عقدِ اجارہ میں جہالت لازم نہ آئے ۔

الفتاوی الھندیۃ (9/911)

و اما شرائط الصحۃ فمنھا رضا المعتعاقدین و منھا ان یکون المعقود علیہ و ھو المنفعۃ معلوما علما یمنع المنازعۃ فان کان مجھولا جھالۃ مفضیۃ الی المنازعۃ یمنع صحۃ العقد و الا فلا۔ و منھا بیان محل المنفعۃ ۔۔۔۔۔و منھا ان تکون المنفعۃ مقصودۃ معتادا استیفاؤھا بعقد الاجارۃ ۔۔۔۔۔۔ ومنھا خلو الرکن عن شرط لا بقتضیہ العقد ولا یالائمہ۔

و فی تقریرات الرافعی 

(قولہ المعروف کالمشروط الخ) ای فیفسد العقد و ان لم یصرح بھذا الشرط لانہ بمنزلہ المنصوص علیہ و ھو لا یقتضیہ العقد خصوصا مع جھالۃ مقدار ما باکلہ العبد و جنسہ، لکن ھذا حینئذ مخالف لکلام الفقیہ بالکلیۃ، فان مقتضاہ جواز الاجارۃ فی العبد لا الدابۃ، و لعل وجہ الجواز فیہ مع الجھالۃ فی علفہ انھا لا تفضی الی المنازعۃ بسبب انہ یاکل من مال المستاجر عادۃ کما یشیر الیہ قولہ “اما فی زماننا الخ” فتکون مثل استجار الظئر بطعامھا۔

تحفۃ الفقھاء (2/347)

کتاب الاجارۃ الاجارۃ نوعان اجارۃ علی المنافع و اجارۃ علی الاعمال و لکل نوع شروط و احکام۔

اما الاجارۃ علی المنافع فک اجارۃ الدور و المنازل و الحوانیت و الضیاع و عبیدالخدمۃ و الدواب للرکوب و الحمل و الثیاب والحلی  للبس و الاونی و الظروف للاستعمال و العقد جائز فی ذلک کلہ۔

و شروط جوازہ ان تکون العین المستاجرۃ معلومۃ و اللاجرۃ معلومۃ و المدۃ معلومۃ بیوم او شھر او سنۃ للانہ عقد معاوضۃ کالبیع و اعلام المبیع و الثمن شرط فی البیع فکذلک ھھنا الا ان المعقود علیہ ھھنا ھو المنافع فلا بد من اعلامھا بالمدۃ و العین و الذی عقدت الاجارۃ علی منافعہ۔۔۔۔۔۔۔۔

و اللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم

فیاض علی سواتی غفر لہ و لوالدیہ

دارالافتاء جامعہ دارالعلوم کراچی

14/جمادی الاولیٰ/1440ھ

21/جنوری /2019ء

عربی حوالہ جات وپی ڈی ایف فائل میں فتویٰ حاصل کرنےکےلیےلنک پرکلک کریں :

https://www.facebook.com/groups/497276240641626/permalink/967698806932698/

اپنا تبصرہ بھیجیں