دکان دارکابل جمع کرنےپراضافی رقم لینا

دارالعلوم کراچی فتویٰ نمبر:198

محترم مفتی صاحب!

                                             السلام علیکم

مندرجہ ذیل مسئلہ کے متعلق شرعی حکم مطلوب ہے

ایک دکان دار لوگوں کے بجلی کے بل جمع کرتاہے اور اس بل جمع کرنے پر اسے کمپنی واپڈاکی طرف سے متعینہ کمیشن بھی ملتاہے مگر اس کے علاوہ وہ ہر بل جمع کرانے کے لیے آنے والے شخص سے اپنے لیے 10روپے اضافی لیتا ہے مثلاً اگر بل /500 روپے ہے تو وہ /510 روپے وصول کرتاہے اور اپنی دکان پر اس کا باقاعدہ ایک بورڈ لگا ہوا ہے ۔ اب پوچھنا یہ ہے کہ یہ اضافی روپے دکان دار کے لیے لینا جائز ہے یا نہیں ؟ نیز کیا ہر گاہک کو یہ بتانا ضروری ہے کہ میں یہ 10روپے اپنے لیے وصول  کر رہا ہوں ۔واضح رہے کہ کمپنی کی طرف سے دکان دار کو یہ اضافی رقم وصول کرنے کی صراحتاً اجازت ہے ۔اس بارے میں شرعی حکم سے مطلع کر کے ممنون فرمائیں ۔

جزاکم اللہ خیراً

درخواست گزار

امام الدین

الوچ پورن، ضلع شانگلہ خیبر پختونخواہ پاکستان

الجواب حامداً و مصلیاً

مسئولہ صورت میں اگر کمپنی کا دکان دار کے ساتھ صارفین سے اضافی رقم وصول نہ کرنے کا معاہدہ نہیں ہے یعنی کمپنی نے دکان دار کو یہ اجازت دے رکھی ہے کہ وہ بل جمع کرانے والے صارفین سے اپنے لیے دس روپے وصول کر سکتاہے جیسا  کہ سوال میں مذکور ہے یا کم از کم کمپنی کی طرف سےممانعت نہیں ہے تو دکان دار کا بل جمع کرانے والے شخص سے یہ اضافی رقم وصول کرنا شرعاً درست ہے البتہ گاہک کو صحیح صورت حال بتانا اور دھوکہ سے بچنا لازم ہے نیز اگر وہاں یہ بات اتنی معروف ہو کہ ہر صارف کو معلوم ہو یا دکان دار اپنی دکان میں کسی مناسب جگہ پر یہ اعلان آویزاں کردے جہاں ہر صارف اسے پڑھ سکتا ہو کہ ہر بل جمع کرانے والے سے 10روپے دکان دار اپنے لیے وصو ل کرے گا تو پھر ہر صارف کو علیحدہ علیحدہ بتانا ضروری نہیں  ہوگا(ماخذہ التبویب: 1399/50 بتصریف)

الدر المحتارکتاب البیوع ، فروع فی البیع (4/560 ط سعید)

و اما الدلال فان باع العین بنفسہ باذن ربھا فاجرتہ علی البائع و ان سعی و باع المالک بنفسہ یعتم العرف و عمامہ فی شرح الوھیائیۃ۔

و فی رد المحتار تحتہ

(قولہ: یعتم العرف) المتجیب الدلالۃ علی البائع او المشتری او علیھا یحسب العرف مجمع الضمانات، باب المسائل، الاجارۃ النوع السابع عشر: العرف فتجب الدلالۃ علی البائع او علی المشتری او علیھما بحسب العرف جامع الفصولین۔

جامع الفصولین، الفصل الرابع و الثلاثون: فی الاحکامات، احکام الدلال (2/153ط مکتب القفس کویتہ)

و لو سعی الدلال بینھما فباع المالک بنفسہ یعتمر العرف فتجب الدلالۃ علی البائع او علی المشتری او علیھما بحسب العرف۔

درد الحا کم شرح مجلۃ الاحکام، کتاب البیوع، الباب الخماس، الفصل الرابع (1/231)

(المائدہ 289) المصارف المتصلۃ بتسلم المبیع۔۔۔۔۔۔۔۔اما اذا کان الدلال مشی بین البائع و المشتری ررغل بینھما ثم باع صاحب المال مالہ ینظر فان کان مجری العرف و العادۃ ان تؤخذ اجرۃ الدلال جمیعھا من البائع اخذت منہ او من المشتری اخذت منہ او من الاثنین اخذت منھما۔

و اللہ سبحانہ و تعالی اعلم و علمہ اتم و احکم

علی رضا

دارالافتاء جامعہ دارالعلوم کراچی

5 – ربیع الاول – 1438ھ

5 – دسمبر – 2016ء

پی ڈی ایف فائل میں فتویٰ حاصل کرنےکےلیےلنک پرکلک کریں :

https://www.facebook.com/groups/497276240641626/permalink/779207592448488/

اپنا تبصرہ بھیجیں