گھر گروی رکھوانا

فتویٰ نمبر:931

سوال: 

محترم جناب مفتیان کرام! 

گھر گروی(رہن)رکھنے کے متعلق بتادیں یہ صحیح ہے کہ نہیں؟

اب گھر گروی ہونے کے ساتھ اس کا کرایہ بھی بہت کم طے کر لیا جاتا ہے یہ تاویل کرنے کے لیے کہ گروی (رہن) پر گھر نہیں لیا تو اس کا کیا حکم ہے؟ 

والسلام

الجواب حامداو مصليا

ضرورت مند کو قرض دینے میں نفلی صدقہ سے زیادہ ثواب ملتا ہے اور ضرورت کی وجہ سے اپنی زمین یا مکان دوسرے کو رہن کے طور پر دینا اور اس سے قرض لینا جائز ہے۔ اور قرض کی ادائیگی کے بعد اپنی زمین کو واپس بھی لے سکتا ہے،لیکن قرض دے کر کچھ نفع حاصل کرنا یہ سود کہلاتا ہے اورسود لینا اوردینا اسلام میں نص قطعی سے ناجائز اور حرام ہے، 

اسی وجہ سے رہن کا مکان حاصل کرکے اس سے نفع اٹھانا کسی طرح بھی جائز نہیں اگرچہ مالک اس کی اجازت دے دے؛اس لیے کہ شریعت کا حکم ہے کہ قرض دے کر اس پر کچھ بھی نفع حاصل کیا جائے وہ سود ہے۔ 

اب بعض لوگ قرض کے مقابلہ میں مفت رہائش نہیں لیتے بلکہ کچھ تھوڑا سا کرایہ طے کر لیتے ہیں مثلاً اگر مکان کا واجبی کرایہ پانچ ہزار ماہانہ ہو تو وہ پانچ سو ماہانہ بھی ساتھ میں طے کر لیتے ہیں ۔ لیکن اس سے مسئلہ میں کچھ فرق نہیں پڑتا کیونکہ قرض خواہ کو اب بھی پینتالیس سوروپے ماہانہ کا فائدہ ہو رہا ہے اور چونکہ یہ قرض کی وجہ سے ہے اس لیے سود ہے۔ گروی پر مکان لینے والے پر لازم ہوتا ہے کہ وہ مالک مکان کو رہائش کی مدت کا واجبی مروجہ یعنی عام ریٹ کے مطابق کرایہ ادا کرے کیونکہ پھر رہن (گروی) کی حیثیت ختم ہو کر اجارہ فاسد کی حیثیت بن جاتی ہےاس لیے اجارہ کے معاملے کو قرض سے بالکل الگ رکھا جائے قرض الگ معاملہ ہو اور گھر کرایے پر لینا(عام ریٹ کے مطابق)یہ الگ معاملہ کیا جائے توجائز ہے۔

▪عن ابن سیرین قلا: جار رجل إلی ابن مسعود رضي اللّٰہ عنہ فقال: إن رجلا رہنني فرسًا فرکبتہا، قال: ما أصبت من ظہرہا فہو ربا۔ (المصنف لعبد الرزاق ۸؍۲۴۵ رقم: ۱۵۰۷۱، إعلاء السنن، کتاب الرہن / باب الانتفاع بالمرہون ۱۸؍۷۳ رقم: ۵۸۱۸ دار الکتب العلمیۃ بیروت)

▪عن طاؤس قال: فی کتاب معاذ بن جبل: من ارتہن أرضًأ فہو بحسب ثمرہا لصاحب الرہن من عام حج النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم۔ (المصنف لعبد الرزاق ۸؍۲۴۵ رقم: ۱۵۰۷۲، إعلاء السنن، کتاب الرہن / باب الانتفاع بالمرہون ۱۸؍۷۴ رقم: ۵۸۱۹ )

▪قال العلامۃ العثماني: قلت: ہٰذان الأثران یدلان علی أنہ لا یجوز للمرتہن الانتفاع بالمرہون؛ لأنہ ربا۔ (إعلاء السنن، کتاب الرہن / باب الانتفاع بالمرہون ۱۸؍۷۳-۷۴ دار الکتب العلمیۃ بیروت، کذا في الشامي / کتاب الرہن ۱۰؍۸۳ زکریا، طحطاوي علی الدر المختار / کتاب الرہن ۴؍۲۳۶)

▪لواستقرض دراہم وسلم حمارہ الی المقرض یستعملہ الی شھرین حتی یوفیہ دینہ او دارہ لیسکنھا فھو بمنزلۃ الاجارۃ الفاسدۃ ان استعملہ فعلیہ اجر مثلہ و لایکون رھنا (ردالمحتار ص 343 ج 5)

▪لا الا نتفاع بہ مطلقا لا باستخدام ولاسکنی ولا لبس ولا اجارۃ و لا اعارۃ سواء کان من مرتھن او راھن الا باذن کل للآخر و قیل لا یحل للمرتھن لانہ ربا و قیل ان شرطہ کان ربا والا لا (درمختار ص 342ج 5)

▪قلت والغالب من احوال الناس انھم یریدون عند الدفع الانتفاع ولولاہ لما اعطاہ الدراھم و ہذا بمنزلۃ الشرط لان المعروف کا لمشروط و ھو مما یعین المنع۔ (ردالمحتار ص 343 ج 5)

و اللہ سبحانہ اعلم

✍بقلم : بنت سعید الرحمن

قمری تاریخ:٦صفر١٤٤٠ھ

عیسوی تاریخ:١٦اكتوبر٢٠١٨

تصحیح وتصویب:مفتی انس عبد الرحیم

ہمارا فیس بک پیج دیکھیے. 

فیس بک:

https://m.facebook.com/suffah1/

ہمارا ٹوئیٹر اکاؤنٹ جوائن کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں. 

ٹوئیٹراکاؤنٹ لنک

https://twitter.com/SUFFAHPK

ہماری ویب سائٹ سے وابستہ رہنے کے لیے کلک کریں:

www.suffahpk.com

ہمارے یوٹیوب چینل کو سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں:

https://www.youtube.com/channel/UCMq4IbrYcyjwOMAdIJu2g6A

اپنا تبصرہ بھیجیں