گم شدہ چیز کو اٹھانے کا حکم

فتویٰ نمبر:5034

سوال: محترم جناب مفتیان کرام!

السلام علیکم ورحمۃ اللہ!

ایک خاتون تین دن پہلے رکشے میں اپنا سامان بے دھیانی میں بھول کے اتر گئیں راشن وغیرہ کافی زیادہ ہے، اس سامان کا کیا جائے؟

ہماری مددگار ہے ان کے میاں رکشہ چلاتے ہیں تو ان کے رکشے میں سامان بھول گئی ہیں۔

الجواب حامدا ومصلیا

وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته!

عام شاہراہ پر یا کسی جگہ پر اگر کوئی چیز پڑی ہوئی ملے تو اسے ”لقطہ“ کہتے ہیں، لقطہ اٹھانے کے بارے میں یہ تفصیل ہے کہ اگر اس کے ضائع ہونے کا اندیشہ ہو تو ایسی صورت میں مالک تک پہنچانے کی نیت سے بحفاظت اٹھا لینا واجب ہے، اور اگر اس کے ضائع ہونے کا اندیشہ نہ ہو تو اس کا اٹھانا جائز ہے، ضروری نہیں۔

اگر کسی نے وہ چیز اٹھالی تو اب اس کاحکم یہ ہے کہ جس جگہ سے اٹھائی ہے وہاں پر ممکن ذرائع سے اس کے مالک کو تلاش کرنے کی پوری کوشش کی جائے، اس کے بعد بھی اگر مالک نہ ملے اور غالب گمان ہوجائے کہ مالک نے اب اس کو تلاش کرنا چھوڑ دیا ہوگا، تو اس کا حکم یہ ہے کہ وہ چیز کسی فقیر یا ضرورت مند کو اصل مالک کی طرف سے بطور صدقہ دیدی جائے، اور اگر اٹھانے والاخود فقیر ہو تو خود بھی استعمال کرسکتاہے۔

صدقہ کرنے کے بعد اگر اصل مالک آجائے اور وہ صدقہ پر راضی ہو تو صدقہ درست ہوجائے گا اور وہ ثواب کا مستحق ہوگا اور اگر وہ صدقہ پر راضی نہ ہو اور اپنی چیز کا مطالبہ کرے تو اٹھانے والے پر اپنے مال میں سے دینا لازم ہوگا، تاہم ایسی صورت میں اٹھانے والے کو صدقہ کرنے کا ثواب ملے گا۔ 

صورت مسئولہ میں خاتون راشن رکشے میں بھول گئی ہیں، پہلے تو ان کو تلاش کرنے کی پوری کوشش کی جائے اگر مل جائیں تو ان کا سامان ان کے حوالے کردیا جائے، اگر پوری کوشش کے باوجود وہ نہ مل سکیں تو ان کا سامان ان کی طرف سے صدقے کی نیت سے کسی ضرورت مند اور محتاج کو دے دیا جائے یا خود مستحق ہوں تو سابقہ تفصیل کے مطابق خود استعمال کرلیں۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

الفتاوى الهندية – (2 / 289)

“وإذا رفع اللقطة يعرفها فيقول: التقطت لقطة، أو وجدت ضالة، أو عندي شيء فمن سمعتموه يطلب دلوه علي، كذا في فتاوى قاضي خان. ويعرف الملتقط اللقطة في الأسواق والشوارع مدة يغلب على ظنه أن صاحبها لا يطلبها بعد ذلك هو الصحيح، كذا في مجمع البحرين ولقطة الحل والحرم سواء، كذا في خزانة المفتين، ثم بعد تعريف المدة المذكورة الملتقط مخير بين أن يحفظها حسبة وبين أن يتصدق بها فإن جاء صاحبها فأمضى الصدقة يكون له ثوابها وإن لم يمضها ضمن الملتقط أو المسكين إن شاء لو هلكت في يده فإن ضمن الملتقط لا يرجع على الفقير وإن ضمن الفقير لا يرجع علی الملتقط وإن كانت اللقطة في يد الملتقط أو المسكين قائمة أخذها منه، كذا في شرح مجمع البحرين”.

فتح القدير للمحقق ابن الهمام الحنفي – (13 / 372)

قال ( اللقطة أمانة إذا أشهد الملتقط أنه يأخذها ليحفظها ويردها على صاحبها ) لأن الأخذ على هذا الوجه مأذون فيه شرعا بل هو الأفضل عند عامة العلماء وهو الواجب إذا خاف الضياع على ما قالوا”.

تكملة فتح الملهم- (2 617)

“قوله : “حتى يلقاها ربها” وفى رواية سليمان بن بلال عند البخارى فى العلم: (فذرها حتى يلقاها ربها) وفيه دليل صريح لمذهب الأئمة الحجازيين فى أن الأفضل فى البعير والبقر والفرس أن لا يأخذها بل يتركها حتى يلقى ربها. وقال الحنفية : الالتقاط اليوم أفضل لفساد أحوال الناس. وقال السرخسى رحمه الله فى حديث الباب : (ذلك كان اذا ذاك لغلبة أهل الصلاح والأمانة لاتصل اليها يد خائنة فاذا تركها وجدها وأما فى زماننا فلايأمن وصول يد خائنة اليها بعده. ففى أخذها احياؤها وحفظها على صاحبها فهو أولى) حكاه ابن الهمام فى فتح القدير 5: 354. وراجعه للتفصيل”.

الهداية في شرح بداية المبتدي – (2 / 417)

“وقيل الصحيح أن شيئا من هذه المقادير ليس بلازم ويفوض إلى رأي الملتقط يعرفها إلى أن يغلب على ظنه أن صاحبها لا يطلبها”.

الهداية في شرح بداية المبتدي – (2 / 418)

“قال: ” فإن جاء صاحبها وإلا تصدق بها ” إيصالا للحق إلى المستحق وهو واجب بقدر الإمكان وذلك بإيصال عينها عند الظفر بصاحبها وإيصال العوض وهو الثواب على اعتبار إجازة التصدق بها وإن شاء أمسكها رجاء الظفر بصاحبها”.

الهداية في شرح بداية المبتدي – (2 / 418)

“قال: ” فإن جاء صاحبها ” يعني بعد ما تصدق بها ” فهو بالخيار إن شاء أمضى الصدقة ” وله ثوابها لأن التصدق وإن حصل بإذن الشرع لم يحصل بإذنه فيتوقف على إجازته والملك يثبت للفقير قبل الإجازة فلا يتوقف على قيام المحل بخلاف بيع الفضولي لثبوته بعد الإجازة فيه ” وإن شاء ضمن الملتقط ” لأنه سلم ماله إلى غيره بغير إذنه إلا أنه بإباحة من جهة الشرع وهذا لا ينافي الضمان حقا للعبد كما في تناول مال الغير حالة المخمصة وإن شاء ضمن المسكين إذا هلك في يده لأنه قبض ماله بغير إذنه وإن كان قائما أخذه لأنه وجد عين ماله”

واللہ سبحانہ اعلم

قمری تاریخ: 21/10/1440

عیسوی تاریخ: 24/6/2019

تصحیح وتصویب:مفتی انس عبد الرحیم

ہمارا فیس بک پیج دیکھیے. 

فیس بک:

https://m.facebook.com/suffah1/

ہمارا ٹوئیٹر اکاؤنٹ جوائن کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں. 

ٹوئیٹراکاؤنٹ لنک

https://twitter.com/SUFFAHPK

ہماری ویب سائٹ سے وابستہ رہنے کے لیے کلک کریں:

www.suffahpk.com

ہمارے یوٹیوب چینل کو سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں:

https://www.youtube.com/channel/UCMq4IbrYcyjwOMAdIJu2g6A

اپنا تبصرہ بھیجیں