غسلِ میت کا بیان

غسلِ میت کا بیان

حدیث میں ہے: ’’جو شخص مردے کو نہلائے اور اس کا عیب چھپائے تو اللہ تعالیٰ اس کے گناہوں کو چھپا دے گا اور جو شخص مردے کو کفن دے اللہ تعالیٰ اس کو آخرت میں سندس یعنی باریک ریشم کا لباس پہنائے گا۔‘‘

حدیث میں ہے :’’ جو شخص مردے کو نہلائے اور اس کے عیوب کو چھپائے تو اس کے چالیس گناہ معاف کر دیے جائیں گے اور جو اسے کفن دے اللہ تعالیٰ اس کو جنت میں سندس (باریک ریشم) اور استبرق (دبیز ریشم) پہنائیں گے اور جو شخص میت کے لیے قبر کھو دے اور اس کو اس میں دفن کرے تو اللہ تعالیٰ اس شخص کو اتنا ثواب عطا فرمائیں گے جتنا ثواب اس کو اس شخص کو قیامت تک کے لیے (عاریت پر) مکان دینے پر ملتا۔‘‘

مسئلہ:جب کفن دفن کا تمام سامان مہیا ہوجائے اور نہلانا چاہو تو پہلے کسی تخت کو لوبان یا اگر بتی وغیرہ کسی خوشبو دار چیز کی دھونی دے دو۔تین دفعہ،پانچ دفعہ یا سات دفعہ چاروں طرف دھونی دے کر مردے کو اس پر لٹادو اور کپڑے اتار لو، پھر کوئی موٹاکپڑا ناف سے لے کر گھٹنوںتک ڈال دوتا کہ بدن کا یہ حصہ چھپارہے۔

اگر نہلانے کی کوئی ایسی جگہ ہے،جہاں سے پانی کہیں الگ بہہ جائے گا تو اچھا ہے، تاکہ آنے جانے میں کسی کو تکلیف نہ ہو اور کوئی پھسل کر گر نہ پڑے۔

غسل کا طریقہ

نہلانے کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے مردے کو استنجا کرادو، لیکن اس کی رانوں اور استنجے کی جگہ اپنا ہاتھ مت لگاؤ اور نہ اس پر نگاہ ڈالو، بلکہ اپنے ہاتھ میں کوئی کپڑا لپیٹ لو اورمیت کے جسم پر جو کپڑا ناف سے لے کر زانوں تک پڑا ہے اس کےاندر اندر دھولو،پھر اس کو وضو کرادو، لیکن کلی نہ کراؤ، نہ ناک میں پانی ڈالو، نہ گٹے تک ہاتھ دھوؤ،بلکہ پہلے چہرہ دھولو، پھر ہاتھ کہنی سمیت، پھر سر کا مسح، پھر دونوں پیر اور اگر تین دفعہ روئی تر کرکے دانتوں، مسوڑھوں اور ناک کے دونوں سوراخوں میں پھیردی جائے تو بھی جائز ہے اور اگرکوئی جنابت کی حالت میں یاعورت حیض ونفاس میں مرجائے تو اس طرح روئی تر کر کے منہ اور ناک میں پانی پہنچانا ضروری ہے۔

ناک، منہ اور کانوں میں روئی بھر دو تاکہ وضو کراتے اور نہلاتے وقت پانی نہ جانے پائے۔ وضو کرانے کے بعد میت کے سر کو صابن وغیرہ سے خوب دھولواور صاف کرکے مردے کو بائیں کروٹ پر لٹادواور بیری کے پتے ڈال کر پکایا ہوا نیم گرم پانی(ایسا پانی بہتر ہے) تین دفعہ سر سے پیر تک ڈالو یہاں تک کہ بائیں کروٹ تک پانی پہنچ جائے، پھر دائیں کروٹ پر لٹاؤ اور اسی طرح سر سے پیر تک تین مرتبہ اتنا پانی ڈالو کہ دائیں کروٹ تک پہنچ جائے۔ اس کے بعد مردے کو اپنے بدن کی ٹیک لگاکر ذرا بٹھاؤ اور اس کے پیٹ کو آہستہ آہستہ ملو اور دبادو، اگر کچھ نکلے تو اس کو پونچھ کردھو ڈالو، وضو اور غسل پراس کے نکلنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا، دوبارہ غسل دینے کی ضرورت نہیں۔ اس کے بعد اس کو بائیں کروٹ پر لٹاکر کافور ملا ہوا پانی (یہ بھی بہتر ہے ضروری نہیں) سر سےپاؤں تک تین دفعہ ڈالو، پھر سارا بدن کسی کپڑے سے پونچھ کر کفنادو۔

اگر بیری کے پتے ڈال کر پکایا ہوا پانی نہ ہو تو یہی سادہ نیم گرم پانی کافی ہے، اسی سے تین دفعہ نہلائے اور مردے کوبہت تیز گرم پانی سے نہ نہلائے۔

نہلانے کا مذکورہ طریقہ سنت ہے، اگر کوئی اس طرح تین دفعہ نہ نہلائے بلکہ ایک دفعہ سارے بدن کو دھوڈالے تب بھی فرض ادا ہوجائے گا۔

جب مردے کو کفن پر رکھو تو سر پر عطر لگادو، اگر مردہ مرد ہو تو ڈاڑھی پر بھی عطر لگاد و، پھر ماتھے،ناک، دونوں ہتھیلیوں، دونوں گھٹنوں اور دونوں پاؤں پر کافور مل دو۔ بعض لوگ مردے کے کان میں عطر کی پھریری رکھ دیتے ہیں، یہ شریعت سے ناواقفیت ہے، جتنا شریعت میں آیا ہے اس سے زائد مت کرو۔

بالوں میں کنگھی نہ کرو، نہ ناخن کاٹو، نہ کہیں سے بال کاٹو، سب اسی طرح رہنے دو۔

مردے کو کون غسل دے؟

بہتر یہ ہے کہ مردے کو اس کا کوئی قریبی رشتہ دار نہلائے اور اگر وہ نہ نہلاسکے تو کوئی دیندار نیک شخص نہلائے۔

اگر کوئی مرد مر گیا اور اسے غسل دینے کے لیے کوئی مرد نہ ہو توبیوی کے علاوہ اور کسی عورت کے لیے اس کو غسل دینا جائز نہیں، اگر چہ وہ عورت اس کی محرم ہی کیوں نہ ہو۔

اس مسئلہ پر اشکال اور اس کا جواب امداد الفتاویٰ : 1/493اور بہشتی زیور ص 200 پر دیکھا جاسکتا ہے۔

اگر بیوی بھی نہ ہو تودوسری عورتیں اس کو تیمم کرادیں،لیکن اس کے بدن کو ہاتھ نہ لگائیں بلکہ اپنے ہاتھوں میں دستانے پہن کرتیمم کرائیں۔

کسی کا خاوند مرگیا تو اس کی بیوی کے لیے اس کو نہلانا اور کفنانا درست ہے اور اگر بیوی مرجائے تو خاوند کے لیے اس کا بدن چھونا [ غسل دینا] اور ہاتھ لگانا درست نہیں، البتہ دیکھنا درست ہے اور کپڑے کے اوپر سے ہاتھ لگانا بھی درست ہے۔

جو مرد جنابت کی حالت میں ہو یا عورت حیض ونفاس سے ہو وہ مردے کو نہ نہلائے کہ یہ مکروہ اور منع ہے۔

اگر نہلانے میں کوئی عیب دیکھے تو کسی کو نہ بتائے۔ اگر خدانخواستہ موت کی وجہ سے اس کا چہرہ بگڑ گیا اور کالا ہوگیا تو اس کا چرچا کرناجائز نہیں،البتہ اگر کوئی کھلم کھلا گناہ کرتا تھا، مثلاً: ناچتا یا گانا گانے وغیرہ کا پیشہ کرتا تھا تو ایسی باتیں کہہ دینا درست ہیں تاکہ دوسرے لوگ ایسی باتوں سے بچیں اور توبہ کریں۔ اگر کوئی اچھی بات دیکھے جیسے چہرہ پر نورانیت اور رونق کا ہونا تو اس کا ظاہر کرنا مستحب ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں