عدت کے دوران تنہائی کی وجہ سے بہن کے گھر رہنا

سوال: السلام عليكم! مفتانِ کرام! آپ سے اہم مسئلہ پوچھنا ہے زرا جلدی جواب دے دیجئے، بہت ضروری ہے۔مفتی صاحب! ایک خاتون ہیں اور وہ طلاق کی عدت میں ہیں اور وه اکیلی رہتی ہیں، چونکہ ان کی طبیعت بہت خراب ہے، شدید ذہنی دباؤ ہے، تو ان کی بہن ان کو 15,20 دن یا مہینے کے لئے اپنے گھر لے جانا چاہتی ہیں، تو کیا ایسے میں یعنی کہ عدت میں وہ خاتون بہن کے گھر جا سکتی ہیں؟ کیا اس کی اجازت ہے ؟برائے مہربانی اس کا جواب ذرا جلد دے دیں بڑی مہربانی بہت شکریہ!

الجواب باسم ملھم الصواب

واضح رہے کہ عورت کےلیے وفات یا طلاق کی عدت شوہر کے گھر پر ہی گزارنا ضروری ہے ،البتہ اگر عزت و آبرو کا خوف ہو یا مکان کے منہدم ہوجانے کا خطرہ ہو تو اپنی عدت کے دن دوسری جگہ گزار سکتی ہے۔

صورت مسئولہ میں اگر خاتون بیماری کی وجہ سے تنہا نہیں رہ سکتی اور دوسری جگہ منتقل ہوئے بغیر جان کی ہلاکت یا مرض میں اضافہ یا شدید تکلیف میں مبتلا ہو جانے کا غالب گمان ہو تو اس صورت میں بہن کے گھر منتقل ہوسکتی ہے اور اگر بیماری اس درجہ کی نہیں ہے،بلکہ معمولی ہے پھر ہر صورت میں اسی گھر میں ہی عدت گزارنا لازم ہے، البتہ تنہائی کو دور کرنے کےلیے بہن کو یا کسی رشتہ دار خاتون کو اپنے پاس بلا لیں۔

=================

دلائل:-

1۔”(وتعتدان) أي معتدة طلاق وموت (في بيت وجبت فيه) ولايخرجان منه (إلا أن تخرج أو يتهدم المنزل، أو تخاف) انهدامه، أو (تلف مالها، أو لاتجد كراء البيت) ونحو ذلك من الضرورات فتخرج لأقرب موضع إليه”.

(الدر المختاع وحاشیہ ابن عابدین(رد المحتار):٥٣٦/٣)

2۔”واما في حالة الضرورة فان اضطرت الى الخروج من بيتها بان خافت سقوط منزلها او خافت على متاعها او كان المنزل باجرة ولا تجد ما توديه في اجرته في عدة الوفاة فلا باس عند ذلك ان تنتقل، وان كانت تقدر على الاجرة لا تنتقل، وان كان المنزل لزوجها وقد مات عنها فلها ان تسكن في نصيبها ان كان نصيبها من ذلك ما تكتفي به في السكنى وتستتر عن سائر الورثة ممن ليس بمحرم لها، وان كان نصيبها لايكفيها او خافت على متاعها منهم فلا باس ان تنتقل، وانما كان كذلك؛ لان السكنى وجبت بطريق العبادة حقا لله تعالى عليها، والعبادات تسقط بالاعذار، وقد روي انه لما قتل عمر رضي الله عنه – نقل علي رضي الله عنه – ام كلثوم رضي الله عنها – لانها كانت في دار الإجارة، وقد روي ان عائشة رضي الله عنها نقلت اختها ام كلثوم بنت أبي بكر رضي الله عنه لما قتل طلحة رضي الله عنه فدل ذلك على جواز الانتقال للعذر، واذا كانت تقدر على اجرة البيت في عدة الوفاة فلا عذر، فلا تسقط عنها العبادة كالمتيمم اذا قدر على شراء الماء بان وجد ثمنه وجب عليه الشراء وان لم يقدر لايجب لعذر العدم.

كذا ههنا، واذا انتقلت لعذر يكون سكناها في البيت الذي انتقلت اليه بمنزلة كونها في المنزل الذي انتقلت منه في حرمة الخروج عنه؛ لان الانتقال من الاول اليه كان لعذر فصار المنزل الذي انتقلت اليه كانه منزلها من الاصل فلزمها المقام فيه حتى تنقضي العدة”.

(بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع:٢٠٥/٣)

3۔قوله ونحو ذالک منه ما فی الظهیریة لو خافت باللیل من امر المیت والموت ولا احد معھا التحول لو الخوف شدیداً والا فلا الخ۔

(ردالمحتار: باب العدة فصل فی الحداد،٨٥٤/٢.ط.س.٥٣٦/٣. ١٢ ظفیر)

4۔ ”قوله ونحو ذالک منه مافی الظہیریة لو خافت باللیل من امر المیت والموت ولااحد معھا التحول لو الخوف شدیداً والا فلا الخ“۔

(ردالمحتار: باب العدة،فصل فی الحداد،٨٥٤/٢)

5۔فتاوی درالعلوم دیوبند میں ہے:

”شدت خوف کو عذر جواز خروج قرار دیا ہے، لہذا دوسرے مکان میں بغرض تبدیل آب و ہوا اور زوال افکار و ہموم بصحت عقیدہ منتقل ہونا درست ہے۔“

(فتاوی دارالعلوم زکریا:٢٠١/١٠)

6۔”عورت اس قدر بیمار ہو کہ جس سے جان کی ہلاکت یا مرض میں اضافہ یا شدید تکلیف میں مبتلا ہوجانے کا غالب گمان ہو تو اس صورت میں بیٹے کے گھر عدت گزارنے کی گنجائش ہوگی۔“

(دارالافتاء:جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن فتوی نمبر:144203200281)

فقط واللہ اعلم بالصواب

3نومبر 2021ء

28ربیع الاول 1443ھ

اپنا تبصرہ بھیجیں