افطار سے متعلق فضائل و مسائل

افطار سے متعلق فضائل و مسائل

افطار کا وقت ہوجانے کے بعد ا فطار میں جلدی کرنے کی احادیث میں بہت ترغیب آئی ہے:حدیث قدسی ہے:

أحبُّ عبادي إليّ أعجلہم فطرًا (ترمذي: ۱/۱۵۰) میرے بندوں میں سے میرے پسندیدہ بندے وہ ہیں جو افطار میں جلدی کرتے ہیں ۔

ایک اور حدیث میں ہے!

لا یزال الناس بخیر ما عجلوا الفطر․ (البخاري: ۱/۲۶۳)” یہ امت اس وقت تک بھلائی اور خیر پر باقی رہے گی، جب تک وہ افطار میں جلدی کرنے کا اہتمام کرے گی۔

اسی طرح ایک روایت میں ہے :

عن عمرو بن میمون الأودي قال: کان أصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم أسرع الناس إفطارًا ۔(فتح الملہم: ۵/۲۱۳)” صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کا معمول بھی افطار میں جلدی کرنے کا تھا”۔

اسی طرح ایک روایت میں ہے :ثلاث من أخلاق المرسلین: تعجیل الإفطار الخ “فرمایا کہ تین کام رسولوں کے اخلاق میں سے ہیں ،”ان میں سے ایک افطار میں جلدی کرنا ہے۔”

اس حدیث کے ذیل میں علامہ ابن عابدین فرماتے ہیں :”قولہ: ”وتعجیل الفطر“ ولا یفطر ما لم یغلب علی ظنہ غروب الشمس وإن أذن الموٴذن․” (الدر المختار مع رد المحتار: ۳/۳۵۷، کتاب الصوم، ط: دار إحیاء التراث العربي، بیروت)فرمایا کہ “روزہ دار اس وقت تک افطار نہ کرے جب تک کہ اسے سورج غروب ہونے کا غالب گمان نہ ہوجائے ،اگر چہ مؤذن اذان دے دے۔”

لیکن واضح رہے کہ یہ حکم “استحبابی ” ہے، یعنی بلا عذر افطار میں تاخیر کرنا شریعت کی نظر میں پسندیدہ نہیں ہے،البتہ کسی عذر کی وجہ سے کبھی تا خیر ہوجائے تو کوئی حرج نہیں ۔مثلا اگر دورانِ سفر پانی وغیرہ کچھ بھی مہیا نہ ہونے کی وجہ سے تاخیر سے روزہ کھولنا پڑے، تو اس میں مضائقہ نہیں، اس کی وجہ سے روزے میں کوئی کراہت نہیں آئے گی، تاہم سفر میں پہلے ہی سے ا فطار کے لیے کچھ انتظام کرکے چلنا چاہیے تاکہ تعجیل افطار کی فضیلت فوت نہ ہو۔

مسئلہ: اگر سورج ڈوبنے کے گمان سے روزہ کھول لیا، پھر سورج نظر آیا تو روزہ ٹوٹ گیا، اس کی قضا کرے، کفارہ واجب نہیں ۔

مسئلہ:نقشوں میں دیے گئے سحر و افطار کے اوقات میں تین منٹ کی احتیاط ضروری ہے یعنی نقشے میں دیے گئے وقت سے تین منٹ پہلے سحری بند کریں اور افطار تین منٹ تاخیر سے کریں۔

مسئلہ:کھجوریاکسی اور میٹھی چیزسے روزہ کھولنا بہتر ہے، وہ بھی نہ ہو تو پانی سے افطار کرے۔ بعض لوگ نمک کی کنکری سے افطار کرتے ہیںاور اس میں ثواب سمجھتے ہیں، یہ غلط عقیدہ ہے۔

ترمذی شریف کی حدیث میں ہے کہ حضور ﷺ مغرب کی نماز سے قبل تر کھجوریا خشک کھجور سے روزہ افطارکرتے تھے”۔ اس لئے تر یا خشک کھجور سے روزہ افطار کرنا افضل ہے، اور اگر یہ میسر نہ ہو تو ایک گھونٹ پانی سے بھی روزہ افطار کرنا بہتر ہے۔

افطار کی دعا

ملا علی قاریؒ نے ایک حدیث نقل کی ہے کہ آپ ﷺ افطارکے وقت ’’یَا وَاسِعَ الْفَضْلِ اِغْفِرْلِیْ‘‘ پڑھتے تھے، اورکبھی ’’اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ اَعَانَنِیْ فَصُمْتُ وَرَزَقَنِیْ فَاَفْطَرْتُ‘‘ پڑھتے تھے” ۔پھر آگے لکھتے ہیں کہ ـ’’عوام میں جو یہ الفاظ مشہور ہو گئے ہیں ، اَللّٰھُمَّ لَکَ صُمْتُ وَ ِبکَ آمَنْتُ وَ عَلَیْکَ تَوَکَّلْتُ وہ کسی حدیث سے ثابت نہیں ، بے اصل ہیں ،‘‘ البتہ ان کا معنی اور مطلب صحیح ہے، اس لئے ان کے پڑھنے میں کچھ حرج نہیں ۔

مسئلہ:افطار کے وقت دعا قبول ہوتی ہے، اس لئے اس وقت دعا مانگنا بہتر ہے، اور ساتھ میں دوسرے لوگ بھی جمع ہو جائیں اور ضرورت کے مطابق آواز بلند رکھی جائے اور کسی شرعی اصول کی خلاف ورزی نہ ہوتی ہو تو جائز ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں