اقتداصحیح ہونے کی شرائط

اقتداصحیح ہونے کی شرائط

1-مقتدی کو نماز کی نیت کے ساتھ امام کی اقتداکی بھی نیت کرنا ،یعنی دل میں یہ ارادہ کرنا کہ میں اس امام کے پیچھے فلاں نماز پڑھتا ہوں۔

2-امام اور مقتدی دونوں کی جگہ ایک ہو، چاہے حقیقۃً ایک ہو جیسے دونوں ایک ہی مسجد یا ایک ہی گھر میں کھڑے ہوں یا حکماً ایک ہوں جیسے کسی دریا کے پل پر جماعت قائم کی جائے اور امام پل کے اس پار ہو مگر درمیان میں مسلسل صفیں کھڑی ہوں تو اس صورت میں اگرچہ امام اور ان مقتدیوں کے درمیان جو پل کے اس پار ہیں، دریا حائل ہے اوراس وجہ سے دونوں کا مکان حقیقۃً ایک نہیں، مگر چونکہ درمیان میں برابر صفیں کھڑی ہوئی ہیں اس لیے دونوں کا مکان حکما متحد سمجھا جائے گا اور اقتدا صحیح ہوجائے گی۔

اگر مقتدی مسجد کی چھت پر کھڑا ہو اور امام مسجد کے اندر تواقتدا درست ہے، اس لیے کہ مسجد کی چھت مسجد کے حکم میں ہے، اسی طرح اگر کسی کے گھر کی چھت مسجد سے متصل ہو اور درمیان میں کوئی چیز حائل نہ ہو تو وہ بھی حکماً مسجد سے متحد سمجھی جائے گی اور اس کے اوپر کھڑے ہو کرامام کی اقتدا کرنا درست ہے۔

اگر مسجد بہت بڑی ہو اور اسی طرح گھر بہت بڑا ہو یا جنگل ہو اور امام ومقتدی کے درمیان اتنا خالی میدان ہو کہ جس میں دوصفیں ہوسکیں تو یہ دونوں مقام یعنی جہاں مقتدی کھڑا ہے اور جہاں امام ہے، مختلف سمجھے جائیں گے اور اقتدا درست نہیں ہوگی۔

اسی طرح اگر امام اور مقتدی کے درمیان کوئی نہر ہو جس میں کشتی چل سکتی ہو، یا کوئی اتنا بڑا حوض ہوجو جاری پانی کے حکم میں ہو، یا کوئی عام راہ گزر ہو جس سے بیل گاڑی وغیرہ گزر سکے اور درمیان میں صفیں نہ ہوں تو وہ دونوں متحد نہیں سمجھے جائیں گے اور اقتدا درست نہیں ہو گی، البتہ کوئی چھوٹی سی نالی اگر حائل ہو جو تنگ سے تنگ راستے سے بھی کم ہو تو وہ مانع اقتدا نہیں۔تنگ سے تنگ راستہ وہ ہے جس سے اونٹ گزر سکے۔

پیدل کی اقتدا سوارکے پیچھے یا ایک سوار کی دوسرے سوار کے پیچھے صحیح نہیں،اس لیے کہ دونوں کی جگہ ایک نہیں، البتہ اگر ایک ہی سواری پر دونوں سوار ہوں تو درست ہے۔

3-مقتدی اور امام دونوں کی نماز کا الگ الگ نہ ہونا، اگر مقتدی اورامام کی نماز الگ الگ ہوگی تو اقتدا درست نہ ہوگی، مثلاً: امام ظہر کی نماز پڑھتا ہواور مقتدی عصر کی نماز کی نیت کرے یا امام کل کی ظہر کی قضا پڑھتا ہو اور مقتدی آج کے ظہر کی۔البتہ اگر دونوں کل کے ظہر کی قضا پڑھتے ہوں یا دونوں آج ہی کے ظہر کی قضا پڑھتے ہوں تو درست ہے، البتہ اگر امام فرض پڑھتا ہو اور مقتدی نفل تو اقتدا صحیح ہے، اس لیے کہ امام کی نماز قوی ہے۔

مقتدی اگر تراویح پڑھنا چاہے اور امام نفل پڑھ رہا ہو تب بھی اقتدا صحیح نہیں ہوگی، کیونکہ امام کی نماز ضعیف ہے۔

4-امام کی نماز کا صحیح ہونا، اگر امام کی نماز فاسد ہوگی تو سب مقتدیوں کی نماز بھی فاسد ہوجائے گی، چاہے یہ فساد نماز ختم ہونے سے پہلے معلوم ہوجائے یا ختم ہونے کے بعد، جیسے کہ امام کے کپڑوں میں نجاست غلیظہ ایک درہم سے زیادہ تھی اور نماز ختم ہونے کے بعد یادوران نماز معلوم ہوایا امام کا وضو نہ تھا اور نماز کے بعد یا دوران نماز اس کو خیال آیا۔

امام کی نماز اگر کسی وجہ سے فاسد ہوگئی ہو اور مقتدیوں کو معلوم نہ ہو تو امام پر ضروری ہے کہ اپنے مقتدیوں کو حتی الامکان اس کی اطلاع کردے تاکہ وہ لوگ اپنی نمازوں کا اعادہ کرلیں۔جن کو اطلاع دینا ممکن نہ ہو ان کی نماز ہو گئی۔

5-مقتدی کا امام سے آگے نہ کھڑا ہونا۔ چاہے مقتدی امام کے برابر کھڑا ہو یا پیچھے، اگر مقتدی امام سے آگے کھڑاہو تو اس کی اقتدا درست نہیں ہوگی۔ امام سے آگے کھڑا ہونا اس وقت سمجھا جائے گا جب کہ مقتدی کی ایڑی امام کی ایڑی سے آگے ہوجائے، اگر ایڑی آگے نہ ہو اور انگلیاں آگے بڑھ جائیں چاہے پیر کے بڑے ہونے کے سبب سے یا انگلیوں کے لمبے ہونے کی وجہ سے تو یہ آگے کھڑا ہونا نہ سمجھاجائے گا اور اقتدا درست ہوجائے گی۔

6-مقتدی کو امام کے افعال مثلاً: رکوع، قومہ، سجدہ اور قعدہ وغیرہ کا علم ہو، چاہے امام کو دیکھ کر یا اس کی یا کسی مُکبرّ (تکبیر کہنے والے) کی آواز سن کر یا کسی مقتدی کو دیکھ کر۔ اگر مقتدی کو امام کے افعال کا علم نہ ہو، چاہے کسی چیز کے حائل ہونے کے سبب سے یا کسی اور وجہ سے تو اقتدا صحیح نہیں ہوگی اور اگر کوئی پردہ یا دیوار وغیرہ حائل ہو مگر امام کے افعال معلوم ہوتے ہوں تو اقتدا درست ہے۔

اگر امام کا مسافر یا مقیم ہونا معلوم نہ ہو لیکن قرائن سے اس کے مقیم ہونے کا غالب گمان ہو اور وہ شہر یا گاؤں کے اندر ہو اور مسافر کی سی نماز پڑھائے یعنی چار رکعت والی نماز میں دو رکعت پر سلام پھیردے اور مقتدی کو اس سلام سے امام کے بھول جانے کا شبہ ہو تو اس مقتدی پر اپنی چار رکعتیں پوری کرلینے کے بعد امام کی حالت کی تحقیق کرنا واجب ہے کہ امام نے بھول کر سلام پھیر دیا ہے یاوہ مسافر تھا، اگر تحقیق سے معلوم ہوا کہ وہ مسافر تھاتو نماز صحیح ہوگئی اور اگر تحقیق سے معلوم ہوا کہ بھول گیا تھاتو نماز کا اعادہ کرے اور اگر تحقیق نہیں کی بلکہ مقتدی اسی شبہہ کی حالت میں نماز پڑھ کر چلا گیا تو اس صورت میں بھی اس پر نماز کا لوٹانا واجب ہے۔

اگر امام کے متعلق مقیم ہونے کا گمان ہے، مگر وہ نماز شہر یا گاؤں میں نہیں پڑھارہا بلکہ شہر یا گاؤں سے باہر پڑھارہا ہے اور اس نے چار رکعت والی نماز میں مسافر کی سی نماز پڑھائی اور مقتدی کو امام کے بھول جانے شبہہ ہوا، اس صورت میں بھی مقتدی اپنی چار رکعت پوری کرلے اور نماز کے بعد امام کا حال معلوم کرلے تو اچھا ہے، اگر معلوم نہ کرے تو اس کی نماز فاسد نہیں ہوگی، کیونکہ شہر یا گاؤں سے باہر امام کا مسافر ہونا ہی ظاہر ہے اورا س کے متعلق مقتدی کا یہ خیال کہ شاید اس کو بھول ہوئی ہے، ظاہر کے خلاف ہے، لہٰذا اس صورت میں تحقیقِ حال ضروری نہیں۔ اسی طرح اگر امام چار رکعت والی نمازشہر یا گاؤں میں پڑھائے یا جنگل وغیرہ میں اور کسی مقتدی کو اس کے متعلق مسافر ہونے کاشبہہ ہو، لیکن امام نے پوری چار رکعت پڑھائیں تب بھی متقدی کو نماز کے بعد تحقیقِ حال واجب نہیں۔ فجر اور مغرب کی نماز میں کسی وقت بھی امام کے مسافر یا مقیم ہونے کی تحقیق ضروری نہیں، کیونکہ ان نمازوں میں مقیم ومسافر سب برابر ہیں۔ خلاصہ یہ کہ اس تحقیق کی ضرورت صرف ایک صورت میں ہے، جب امام شہر یا گاؤں میں یا کسی جگہ چار رکعت کی نماز میں دو رکعت پڑھائے اور مقتدی کو امام پر سہو کا شبہ ہو۔

7-مقتدی کا تمام ارکان میں سوائے قراء ت کے امام کے ساتھ شریک رہنا، چاہے امام کےساتھ ادا کرے یا اس کے بعد یا اس سے پہلے، بشرطیکہ اسی رکن کے آخر تک امام اس کے ساتھ شریک ہوجائے۔ پہلی صورت کی مثال یہ ہے کہ امام کے ساتھ ہی رکوع سجدہ وغیرہ کرے۔ دوسری صورت کی مثال یہ ہے کہ امام رکوع کرکے کھڑا ہوجائے اس کے بعد مقتدی رکوع کرے۔ تیسری صورت کی مثال یہ ہے کہ امام سے پہلے رکوع کرے مگر رکوع میں اتنی دیر تک رہے کہ امام کا رکوع اس سے مل جائے۔

اگر کسی رکن میں امام کے ساتھ شرکت نہ کی جائے، مثلاً: امام رکوع کرے اور مقتدی رکوع نہ کرے یا امام دو سجدے کرے اور مقتدی ایک ہی سجدہ کرے یا کسی رکن کی ابتدا امام سے پہلے کی جائے اور اخیر تک امام اس میں شریک نہ ہو، مثلاً: مقتدی امام سے پہلے رکوع میں جائے اور اس سے پہلے کہ امام رکوع کرے مقتدی کھڑا ہوجائے، ان دونوں صورتوں میں اقتدا درست نہ ہوگی۔

8-مقتدی کی حالت کا امام سے کم یا برابر ہونا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں