جماعت چھوڑنے کے اعذار

جماعت چھوڑنے کے اعذار

1-اتنا لباس موجود نہ ہو جس سے ستر کو چھپا یا جاسکے۔

2- مسجد کے راستے میں سخت کیچڑ ہو کہ چلنا سخت دشوار ہو۔ امام ابویوسفؒ نے امام اعظم ابو حنیفہؒ سے پوچھا کہ کیچڑ وغیرہ کی حالت میں جماعت کے لیے آپ کیا حکم دیتے ہیں؟ فرمایا کہ جماعت کا چھوڑنا مجھے پسند نہیں۔

3- بہت زور سے بارش برس رہی ہو، ایسی حالت میں امام محمد نے مؤطا میں لکھا ہے کہ اگرچہ مسجد نہ جانا جائز ہے مگر بہتر یہی ہے کہ مسجد جا کرجماعت سے نماز پڑھے۔

4-ایسی سخت سردی ہو کہ باہر نکلنے میں یا مسجد تک جانے میں کسی بیماری کے ہوجانے یا بڑھ جانے کا اندیشہ ہو۔

5-مسجد جانے میں مال واسباب کے چوری ہوجانے کا اندیشہ ہو۔

6- مسجد جانے میں کسی دشمن کا سامنا ہوجانے کا اندیشہ ہو۔

7- مسجد جانے میں کسی قرض چاہے کے ملنے اور اس سے تکلیف پہنچنے کا اندیشہ ہو، بشرطیکہ اس کے قرض کے ادا کرنے پر قادر نہ ہو اور اگر قادر ہو توایسا شخص ظالم سمجھا جائے گا اورا س کو جماعت چھوڑنے کی اجازت نہ ہوگی۔

8-اندھیری رات ہو کہ راستہ دکھائی نہ دیتا ہو، لیکن اگر کسی کے پاس روشنی کا انتظام ہو تو اسے جماعت نہیں چھوڑنی چاہیے۔

9-رات کا وقت ہو اور آندھی بہت سخت چلتی ہو۔

10-کسی مریض کی تیمارداری کرتا ہو کہ اس کے جماعت کے لیے چلے جانے سے اس مریض کی تکلیف یا وحشت کا اندیشہ ہو۔

11-کھانا تیار ہو یا تیاری کے قریب ہواور بھوک ایسی لگی ہو کہ نماز میں توجہ نہ لگنے کا اندیشہ ہو۔

12-قضائے حاجت کا شدید تقاضاہو۔

13-سفر کا ارادہ ہو اور ڈر ہو کہ جماعت سے نماز پڑھنے میں د یر ہوجائے گی یاقافلہ نکل جائے گا، ریل کا مسئلہ اسی پر قیاس کیا جاسکتا ہے، مگر اتنا فرق ہے کہ وہاں ایک قافلے کے بعد دوسرا قافلہ کئی دنوں کے بعد ملتا ہے اور یہاں ریل ایک دن میں کئی بار جاتی ہے، اگر ایک وقت کی ریل نہ ملے تو دوسرے وقت جاسکتا ہے۔البتہ اگر کسی وجہ سے شدید حرج ہوتا ہو تو مضایقہ نہیں۔

14-کوئی ایسی بیماری ہو جس کی وجہ سے چل پھر نہ سکے یا نابینا ہو یا لنجا ہو یا کوئی پیر کٹاہوا ہو، لیکن جو نابینا بے تکلف مسجد تک پہنچ سکے اس کو جماعت نہیں چھوڑنی چاہیے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں