جماعت کی فضیلت اوراس سے متعلق احادیث مبارکہ

جماعت کی فضیلت اوراس سے متعلق احادیث مبارکہ

جماعت کی فضیلت اور تاکید میں صحیح احادیث اتنی کثرت سے آئی ہیں کہ اگر سب ایک جگہ جمع کی جائیں تو اچھے خاصے حجم کا ایک رسالہ تیار ہوسکتا ہے۔ان کے دیکھنے سے یقینی طور پر یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ جماعت نماز کی تکمیل میں ایک اعلیٰ درجہ کی شرط ہے۔ نبی اکرمﷺنے کبھی جماعت نہیں چھوڑی،یہاں تک کہ حالت ِمرض میں جب آپﷺکو خود چلنے کی طاقت نہ تھی، دو آدمیوں کے سہارے مسجد میں تشریف لے گئے اور جماعت سے نماز پڑھی۔ جماعت چھوڑ نے والے پر آپ کو سخت غصہ آتا تھا اور ترک جماعت پر سخت سے سخت سزادینے کو آپ کا جی چاہتا تھا۔ بلاشبہ شریعت ِمحمدیہ میں جماعت کا بہت بڑا اہتمام کیا گیا ہے اور ہونا بھی چاہیے کیونکہ نماز جیسی عبادت کی شان بھی اسی کو چاہتی ہے کہ جس چیز سے اس کی تکمیل ہو وہ بھی تاکید کے اعلیٰ درجہ پر پہنچادی جائے۔

ارشاد باری تعالی ہے! وَارْكَعُوا مَعَ الرَّاكِعِينَ(بقرہ :43)ترجمہ: ’’اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو “۔

یعنی نماز پڑھنے والوں کے ساتھ مل جماعت سے نماز پڑھو۔ا س آیت میں جماعت سے نماز پڑھنے کا صریح حکم ہے، مگر چونکہ رکوع کے معنی بعض مفسرین نے خضوع یعنی عاجزی کے بھی لکھے ہیں لہٰذا فرضیت ثابت نہیں ہوگی۔

فضیلت ِجماعت سے متعلقہ احادیث مبارکہ

1-ابن عمر رضی اللہ عنہما نبی کریمﷺسے روایت نقل فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے فرمایا: ’’جماعت سے نمازپڑھنے کا ثواب تنہا نماز پڑھنے سے ستائیس درجہ زیادہ ہے۔‘‘ ( بخاری ، مسلم )

2- نبی کریمﷺنے فرمایا: ’’ تنہا نماز پڑھنے سے ایک آدمی کے ساتھ نماز پڑھنا بہت بہتر ہے اور دو آدمیوں کے ساتھ اور بھی بہتر اور جتنی زیادہ جماعت ہو اتنی اللہ تعالیٰ کو پسند ہے۔‘‘ ( ابو داو‘د ، نسائی )

3-انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ بنو سلمہ کے لوگوں نے ارادہ کیا کہ اپنے پرانے مکانات سے (چونکہ وہ مسجد ِنبوی سے دور تھے) منتقل ہو کر نبی کریمﷺ کے قریب آکر رہیں تو ان سے نبی اکرمﷺنے فرمایا: ’’کیا تم اپنے قدموں میں جو زمین پر پڑتے ہیں ثواب نہیں سمجھتے؟‘‘ ( مسلم )

اس سے معلوم ہوا کہ جو شخص جتنی دور سے چل کر مسجد میں آئے گا اتنا ہی زیادہ ثواب ملے گا۔ لیکن اگر کسی کے محلہ میں مسجد ہو تو اس کو چھوڑ کر دور نہ جائے، کیونکہ محلہ کی مسجد کا حق زیادہ ہے، بلکہ اگر وہاں جماعت بھی نہ ہوتی ہو تو تب بھی وہاں جاکر اذان واقامت کہہ کرتنہا نماز پڑھے۔

4-نبی کریمﷺنے فرمایا:’’ جتنا وقت نماز کے انتظار میں گزرتا ہے وہ سب نماز میں شمار ہوتا ہے۔‘‘

5- نبی کریمﷺنے ایک روز عشا کے وقت اپنے ان اصحاب سے جو جماعت میں شریک تھے فرمایا کہ لوگ نماز پڑھ کر سوگئے اور تمہارا وہ وقت جو انتظار میں گذرا سب نماز میں شمار ہوا۔

6-نبی کریمﷺسے بریدہ اسلمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ’’ان لوگوں کو جو اندھیری راتوں میں جماعت کے لیے مسجد جاتے ہیں اس بات کی خوشخبری دو کہ قیامت میں ان کے لیے پوری روشنی ہوگی۔‘‘( ترمذی )

7-حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرمﷺنے فرمایا: ’’جو شخص عشا کی نماز جماعت سے پڑھے اس کو آدھی رات کی عبادت کا ثواب ملے گا اور جو عشا اور فجر کی نماز جماعت سے پڑھے اسے پوری رات کی عبادت کا ثواب ملے گا۔ ‘‘

8-حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی اکرمﷺسے روایت کرتے ہیں کہ ایک روز آپﷺنے فرمایا:’’ بیشک میرے دل میں یہ ارادہ ہوا کہ کسی کو حکم دوں کہ لکڑیاں جمع کرے، پھر اذان کا حکم دوں اور کسی شخص سے کہوں کہ وہ امامت کرے اور میں ان لوگوں کے گھروں پر جاؤں جو جماعت میں نہیں آتے اور ان کے گھروں کو جلادوں۔ ‘‘

9-ایک روایت میں ہے:’’ اگر مجھے چھوٹے بچوں اور عورتوں کا خیال نہ ہوتا تو میں عشا کی نماز میں مشغول ہوجاتا اور خادموں کو حکم دیتا کہ انہیں ان (جماعت میں شریک نہ ہونے والوں)کے گھروں کو مال واسباب سمیت جلادیں۔‘‘( مسلم )

اس حدیث میں عشا کی تخصیص اس مصلحت سے معلوم ہوتی ہے کہ وہ سونے کا وقت ہوتا ہے اور غالباً تمام لوگ اس وقت گھروں میں ہوتے ہیں۔ امام ترمذی اس حدیث کو لکھ کہ فرماتے ہیں کہ یہی مضمون حضرت ابن مسعود،ابو درداء، ابن عباس اور جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے بھی مروی ہے، یہ سب لوگ نبی کریمﷺکے معزز اصحاب ہیں۔

10-ابودرداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: ’’کسی آبادی یا جنگل میں تین مسلمان ہوں اوروہ جماعت سے نماز نہ پڑھیں تو بیشک ان پر شیطان غالب ہوجائے گا، پس اے ابودرداء! جماعت کو اپنے اوپر لازم سمجھ لو اور دیکھو بھیڑیااسی بکری کو کھاتاہے جو اپنے گلّے سے الگ ہوگئی ہو۔‘‘ (یعنی اسی طرح شیطان بھی اس شخص کو بہکاتا ہے جو اپنی جماعت سے الگ ہو جائے)۔

11-ابن عباس رضی اللہ عنہما نبی کریمﷺسے روایت کرتے ہیں کہ ’’جو شخص اذان سن کر جماعت میں نہ آئے اور اسے کوئی عذر بھی نہ ہو تو اس کی وہ نماز جو تنہا پڑھی ہے قبول نہیں ہوگی۔‘‘ صحابہ رضی اللہ عنہم نے پوچھا کہ وہ عذر کیا ہے؟ حضور ِاکرم ﷺنے فرمایا: ’’خوف یا مرض۔‘‘ اس حدیث میں خوف اور مرض کی تفصیل نہیں کی گئی۔ بعض احادیث میں کچھ تفصیل بھی ہے۔

12-حضرت محجن رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نبی کریمﷺکے ساتھ تھا کہ اتنے میں اذان ہوئی اور رسول اللہﷺنماز پڑھنے لگے اور میں اپنی جگہ پر جاکر بیٹھ گیا۔حضور اکرمﷺنے نماز سے فارغ ہوکر فرمایا: ’’اے محجن! تم نے جماعت سے نماز کیوں نہیں پڑھی، کیا تم مسلمان نہیں ہو؟‘‘ میں نے عرض کیا: ’’یا رسول اللہ ! میں مسلمان تو ہوں مگر میں اپنے گھر میں نماز پڑھ چکا تھا۔‘‘ نبی کریمﷺ نے فرمایا: ’’جب مسجد میں آؤ اور دیکھو کہ جماعت ہورہی ہے تو لوگوں کے ساتھ مل کر نماز پڑھ لیا کرو، اگرچہ پہلے پڑھ چکے ہو۔‘‘

مگر فجر، عصر اور مغرب کی نماز اگر تنہا پڑھ لی ہو اور پھر جماعت ہورہی ہو تو اب جماعت میں شامل نہیں ہونا چاہیے، اس لیے کہ فجر اور عصر کے بعد نوافل پڑھنا جائز نہیں،مغرب میں اس لیے کہ تین رکعت نفل نہیں ہوتے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں