کمیشن لینا جائز ہے یا نہیں؟ 

سوال: محترم جناب مفتیان کرام! 

السلام علیکم و رحمۃ الله و بركاته!

ایک شخص اپنی دکان بیچنا چاہتے ہیں انکے پاس ایک بروکر آکر کہتا ہے کہ یہ دکان آپ کو بیچنی ہے 60 میں، 70 کا گاہک میرے پاس ہے 10میں اپنے رکھوں گا آپ کی طرف سے 10رکھنے کی اجازت ہے؟ دکان کا مالک اس کو قبول کرلیتا ہے کیا اس طرح بیچنا جائز ہے؟ کیااس صورت میں خریدار کو یہ بتانا ضروری ہے کہ 10 بروکر رکھے گا؟اگر صحیح نہیں تو کیا صورت اختیار کرنی چاہیے ؟

الجواب باسم ملہم الصواب

وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ! 

دکان کی یا کسی اور جائیداد کی خرید و فروخت میں کمیشن لینا جائز ہے۔خریدار اور بیچنے والے دونوں کے علم میں یہ بات ہوتی ہے۔عرف میں اس کا عام رواج ہے ۔بروکر اگر بائع کو 10% خود کے رکھنے کا کہتا ہے اور دکان کو بائع کی بتا کر بیچتاہےتو یہ صورت جائز ہے ۔

في ’’ الشامیۃ ‘‘ : تتمۃ : قال في التاترخانیۃ : وفي الدلال والسمسار یجب أجر المثل ، وما تواضعوا علیہ أن في کل عشرۃ دنانیر کذا فذاک حرام علیہم ، وفي الحاوي : سئل محمد بن سلمۃ عن أجرۃ السمسار ، فقال : أرجو أنہ لا بأس بہ ، وإن کان في الأصل فاسدًا لکثرۃ التعامل ، وکثیر من ہذا غیر جائز ، فجوزوہ لحاجۃ الناس إلیہ ۔ (9/75، کتاب الإجارۃ ، باب الإجارۃ الفاسدۃ ، مطلب في أجرۃ الدلال)

ما في ’’ خلاصۃ الفتاوی ‘‘ : وفي الأصل أجرۃ السمسار والمنادي والحمامي والصکاک وما لا تقدیر فیہ للوقت ولا مقدار لما یستحق بالعقد ، لکن للناس فیہ حاجۃ جاز ، وإن کان في الأصل فاسدًا ۔. (۳/۱۱۶، کتاب الإجارات ، الفصل الثاني في صحۃ الإجارۃ وفسادہا ، جنس آخر في المتفرقات الخ ، الفتاوی الہندیۃ :۴/۴۵۰ ، ۴۵۱ ، کتاب الإجارۃ ، الباب السادس عشر ، مطلب الاستئجار علی الأفعال المباحۃ ، المبسوط للسرخسي :۱۵/۱۲۸، کتاب الإجارات ،

فقط اہلیہ زبیر عفی عنہا

واللہ اعلم

6 ذی الحجہ1441ھ

26 جولائی2020ء

اپنا تبصرہ بھیجیں