فتویٰ نمبر:4002
سوال: محترم جناب مفتیان کرام! اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ !
مسئلہ اگر ایک شخص کرائے کے مکان می رہتا ہو اور کسی اور جگہ ذاتی مکان کرایہ پر دیا ہو وہاں کا کرایہ یہاں ادا کرے تو کیا اس مکان پر زکوةواجب ہوگی .برائے مھربانی رہنماٸی فرماٸیں
والسلام
الجواب حامداو مصليا
وَعَلَيْكُم السَّلَام وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ!
کراٸے پر دیے ہوٸے مکان پر زکوة واجب نہیں بلکہ اس سے حاصل ہونے والی آمدنی پر زکوة واجب ہوتی ہے اگر وہ دیگر اموال زکوة کے ساتھ مل کر نصاب کی مقدار کو پہنچتا ہوتو زکوٰۃ واجب ہوگی اور اگر مال نصاب مقدار کو نہیں پہنچ رہا تو اس پر بھی زکوة نہیں ۔
صورت مذکورہ میں مکان آپ کی حاجت اصلیہ میں شامل ہے لہذا اس پر بھی زکوة واجب نہیں ۔
”ولو اشتری الرجل دارا او عبدا للتجارة ثم اٰجرہ یخرج من ان یکون للتجارة لانہ لما اٰجرہ فقد قصد المنفعة ولو اشتری قدورا من صفر یمسکھا او یواجرھا لاتجب فیھا الزکوة “
(فتاوی قاضی خان :١/٢٥١)
”وذلک عن طریق اقامة المبانی او العمارات بقصد الکرا۶ والمصانع المعدة للانتاج ووساٸل النقل من طاٸرات وبواخروسیارات ومزارع الابقار والرواجن وتشترک کلھا فی صفة واحدة ھی انھا لاتجب الزکاة فی عینھا وانما فی ریعھاوغلتھا او ارباحھا “
(الفقہ الاسلامی وادلتہ:١٨٨١ )
”ولیس فی دور السکنی وثیاب البدن واثاث المنازل ودواب الرکوب وعبید الخدمة وصلاح الاستعمال زکوة لانھا مشغولة بالحاجة الاصلیةولیست بنامیة ایضا وعلی ھذا کتب العلم لاھلھا والات المحترفین “
(الھدایہ: ١٨٦ )
و اللہ سبحانہ اعلم
قمری تاریخ:٢٢جمادی الاولی ١٤٤٠
عیسوی تاریخ:٢٨جنوری ٢٠١٩ ۶
تصحیح وتصویب:مفتی انس عبد الرحیم
ہمارا فیس بک پیج دیکھیے.
فیس بک:
https://m.facebook.com/suffah1/
ہمارا ٹوئیٹر اکاؤنٹ جوائن کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں.
ٹوئیٹراکاؤنٹ لنک
ہماری ویب سائٹ سے وابستہ رہنے کے لیے کلک کریں:
ہمارے یوٹیوب چینل کو سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں: