کسی اورکےگھرعدت گزارنا

ایک خاتون جو کہ طلاق یافتہ اور بچوں والی ہیں عدت میں والدہ کے گھر ہیں والدہ کے گھر تنگی ہونےکی وجہ سے پھوپھی کے گھر عدت گزارسکتی ہیں گھر خالی ہے اور معتدہ کے بچوں کے ملکیت ہے نیز اسی پھوپھی کے بیٹے سے نکاح کا ارادہ ہے جو اسی گھر کے دوسرے پورشن میں رہتے ہیں ۔ 

تنقیح ۔تنگی سے کیا مراد ہے ؟ 

جواب تنقیح ۔

وہاں گیس نہیں آتی وہاں موجود لوگ طعنے دیتے ہیں گھر کا کرایہ دینا پڑتا ہے خرچہ بہت زیادہ ہوگیا ہے پھوپھی کے گھر یہ سب مسائل نہیں ہیں ۔گھر پھوپھی کے بچوں کا ہے پھوپھی کا انتقال ہوچکا ہے ۔

الجواب باسم ملھم الصواب

واضح رہے کہ طلاق کی عدت میں عورت کے لیے شوہر کے گھر میں ہی عدت گزارنا لازم ہے اور عدت کا نفقہ شوہر کے ذمہ لازم ہے ، بلا کسی شرعی عذر کے شوہر کے گھر کے علاوہ کہیں دوسری جگہ عدت گزارنا جائز نہیں ، صورتِ مسئولہ میں اول شوہر کے گھر عدت گزارنا شرعا لازم ہے اگر وہاں سے کسی شرعی عذر کی وجہ سے والدہ کے گھر منتقل ہوئی ہیں تو اب والدہ کے گھر ہی عدت مکمل کرنا ضروری ہے چونکہ شوہر پر عدت کا خرچہ واجب ہے اس لیے گھر کا کرایہ شوہر کے ذمہ ہے ۔اگر شوہر نفقہ ادا نہیں کررہا تو عورت کے والد پر واجب ہے ۔ اگر والد صاحب ادا نہیں کررہے اور عورت کی وسعت میں بھی نہیں ہے تو اس صورت میں کسی قریبی رشتے دار کے گھر عدت مکمل کرنے کی گنجائش ہوگی۔ سوال میں مذکور پھوپھی کے گھر اگر محرم موجود ہیں تو وہاں بھی گنجائش ہوگی۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 536):

“(وتعتدان) أي معتدة طلاق وموت (في بيت وجبت فيه) ولايخرجان منه (إلا أن تخرج أو يتهدم المنزل، أو تخاف) انهدامه، أو (تلف مالها، أو لاتجد كراء البيت) ونحو ذلك من الضرورات فتخرج لأقرب موضع إليه”.

المعتدۃ عن الطلاق تستحق النفقۃ والسکنی، کان الطلاق رجعیا أو بائنا، أو ثلاثا، حاملا کانت المرأۃ أو لم تکن۔ (ہندیہ، الباب السابع عشر فی النفقات

الفصل الثالث فی نفقۃ المعتدۃ قدیم ۱/۵۵۷ جدید ۱/۶۰۵)

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (3/ 205):

“وأما في حالة الضرورة فإن اضطرت إلى الخروج من بيتها بأن خافت سقوط منزلها أو خافت على متاعها أو كان المنزل بأجرة ولا تجد ما تؤديه في أجرته في عدة الوفاة فلا بأس عند ذلك أن تنتقل، وإن كانت تقدر على الأجرة لا تنتقل، وإن كان المنزل لزوجها وقد مات عنها فلها أن تسكن في نصيبها إن كان نصيبها من ذلك ما تكتفي به في السكنى وتستتر عن سائر الورثة ممن ليس بمحرم لها، وإن كان نصيبها لايكفيها أو خافت على متاعها منهم فلا بأس أن تنتقل، وإنما كان كذلك؛ لأن السكنى وجبت بطريق العبادة حقا لله تعالى عليها، والعبادات تسقط بالأعذار، وقد روي أنه لما قتل عمر – رضي الله عنه – نقل علي – رضي الله عنه – أم كلثوم – رضي الله عنها – لأنها كانت في دار الإجارة، وقد روي أن عائشة – رضي الله عنها – نقلت أختها أم كلثوم بنت أبي بكر – رضي الله عنه – لما قتل طلحة – رضي الله عنه – فدل ذلك على جواز الانتقال للعذر، وإذا كانت تقدر على أجرة البيت في عدة الوفاة فلا عذر، فلا تسقط عنها العبادة كالمتيمم إذا قدر على شراء الماء بأن وجد ثمنه وجب عليه الشراء وإن لم يقدر لايجب لعذر العدم.

كذا ههنا، وإذا انتقلت لعذر يكون سكناها في البيت الذي انتقلت إليه بمنزلة كونها في المنزل الذي انتقلت منه في حرمة الخروج عنه؛ لأن الانتقال من الأول إليه كان لعذر فصار المنزل الذي انتقلت إليه كأنه منزلها من الأصل فلزمها المقام فيه حتى تنقضي العدة”.

واللہ تعالی اعلم باصواب

اپنا تبصرہ بھیجیں