نماز کے دوران ڈکار آنا اور اس کے ساتھ کچھ غذا کا بھی آجانا

سوال : نماز کے دوران اگر ڈکار آجایے اور اس میں کچھ غذا بھی آجایے تو پھر ایسی صورت میں کیا کرنا چاہیے؟ کیا نماز توڑ دینی چاہیے؟ کیونکہ اگر اس غذا کو واپس اندر لے کرجاتے ہیں، تو نماز ٹوٹ گیی اور نماز کے دوران کوئی ایسی جگہ نہیں ہوتی ہے کہ اس کو تھوک دیا جایے تو پھر کیا کرنا چاہیے؟

جواب:

واضح رہے کہ نماز میں حتی الوسع کھانسی اور ڈکار کو روکنا چاہیے، تاہم اگر کسی کو بلا اختیار ڈکار آجائے تو اس سے نماز فاسد نہیں ہوگی اور اگر اس ڈکار کے ساتھ غذا بھی آجائے تو، تو پھر اس میں درج ذیل تفصیل ہے:

1 : اگر منھ بھر ہو تو نماز اور وضو دونوں ٹوٹ جائیں گے۔

2 : اگر منھ بھر کر نہ ہو، صرف تھوڑی سی غذا ہو تو اگر وہ خود بخود واپس چلی جائے تب بھی نماز فاسد نہ ہوگی اور واپس نہ جائے منہ میں ہی رہ جائے تو اس صورت میں بھی نہ وضو ٹوٹے گا اور نہ ہی نماز فاسد ہوگی البتہ جو تھوڑی سی غذا منہ میں ہے تو اسے دائیں یا بائیں جانب عمل کثیر کے بغیر کسی ٹشو یا رومال وغیرہ پر تھوک دے، اس صورت میں اگر وہ اسے نگل جائے اور وہ چنے کے دانے یا اس سے زیادہ مقدار ہو تو نماز فاسد ہوجائے گی۔

عمل کثیر یہ ہے کہ کوئی ایسا کام کرنا کہ دور سے دیکھنے والے کو غالب گمان ہو کہ یہ کام کرنے والا نماز نہیں پڑھ رہا ہے، جس کام کی ایسی کیفیت نہ ہو وہ عمل قلیل ہے-

=======================

حوالہ جات :

1: ( واکلہ وشربہ مطلقا ) ولو سمسمۃ ناسیا ۰

( مطلقاً ) ای سواء کان کثیرا او قلیلا عامدا او ناسیا، ولذا قال : ولو سمسمۃ ناسیا ومثلہ ما اوقع فی فیہ قطرۃ مطر فابتلعھا کما فی البحر ۰

( الدر المختار مع رد المحتار : 2 /382 )

2 : وان اکل او شرب عامدا او ناسیا تفسد صلاتہ کذا فی فتاویٰ قاضخان ۰اذا کان بین اسنانہ شئ من الطعام فابتعلہ ان کان قلیلا دون الحمصۃ لم تفسد صلاتہ الا یکرہ وان کان مقدار الحمصۃ فسدت کذا فی السراج الوھاج ناقلا عن الفتاوی ۰

( فتاویٰ ہندیہ : 1 / 103 )

3 : ( والثالث ) انہ لو نظر الیہ ناظر من بعید ان کان لا یشک انہ فی غیر الصلاۃ فھو کثیر مفسد وان شک فلیس بمفسد وھذا ھو الاصح ھکذا فی التبیین ۰

( فتاویٰ ہندیہ : 1 /103 )

واللہ اعلم بالصواب

اپنا تبصرہ بھیجیں