نماز میں قرات کی غلطی کا حکم

سوال: اگر نماز میں سٗجداً کی بجائے سٗجه پڑھ کر وقف کردے اور پھر دوبارہ سے صحیح بھی کرلےتو کیا نماز ٹوٹ جائے گی؟

جواب: واضح رہے قراءت کی غلطی سے نماز اس وقت فاسد ہوتی ہے جب ایسی غلطی ہو جس سے کہ معنی میں بہت زیادہ تبدیلی آجائے یا وہ مقصودِ قرآن کے خلاف ہوجائے اور اس غلطی کو نماز میں درست بھی نہ کیا گیا ہو۔

مذکورہ صورت میں “سجداً” میں حرف دال کو ھا سے تبدیل کر دینے “سجہ”اگر چہ ایک مہمل سا لفظ بن گیا تھا،لیکن جب اس غلطی کو اسی رکعت میں درست کرلیا تو اس سے نماز صحیح ہوگئی،لہذا اعادہ کی ضرورت نہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ جات:

١۔”ولو زاد کلمة او نقص کلمة الخ لم تفسد مالم یتغیر المعنی“.

(الدر المختار علی ھامش ردالمحتار باب مایفسد الصلوة زلة القاری:٥٩١/١۔ط.س،٦٣٢/١)

٢۔ولو زاد کلمة او نقص حرفاً او قدمه او بدله بآخر الخ لم تفسد مالم یتغیر المعنی“.

(الدر المختار علی ھامش رد المحتار: باب ما یفسد الصلوة زلة القاری،٥٩٢/١.ط.س:٦٣٢/١)

٣۔” وفی الھندیة:٧٩/١

”ومنھا حذف حرف،ان کان الحذف علی سبیل الایجاز والترخیم فان وجد شرائطه۔۔۔۔ لاتفسد صلاته،وان لم یکن علی وجه الایجاز والترخیم فان کان لا یغیر المعنی لاتفسد صلاته۔۔۔الخ

٤۔”ذکر فی الفوائد:لو قرا فی الصلاۃ بخطاٍ فاحش،ثم رجع وقرأ صحیحاً،قال:عندی صلاته جائزة وکذلک الاعراب“.

(فتاوی عالمگیری:الفصل الخامس فی زلة القاری،٨٢/١،ط؛رشیدیه)

٥۔”وفی المضمرات: قرأ فی الصلاة بخطاٍ فاحش ثم أعاد وقرأ صحیحاً فصلاته جائزة“.

(٢٦٧/١،باب مایفسد الصلاة،کتاب الصلاة)

٦۔”غلطی فاحش وہ ہے جس سے معنی بگڑ جائیں،مقصود قرآن کے خلاف ہو جائیں،ایسی غلطی سے فرض نماز فاسد ہوجاتی ہے“۔

(فتاوی محمودیہ:١٢١/٧)

فقط واللہ اعلم

10/اکتوبر2021ء

3ربیع الاول1443ھ

اپنا تبصرہ بھیجیں