نماز میں قرآن شریف پڑھنے کا بیان
قرآن شریف کو صحیح صحیح پڑھنا واجب ہے۔ ہر حرف کو ٹھیک ٹھیک پڑھے۔ ہمزہ اور عین میں ’’ح‘‘ اور ’’ہ‘‘ میں، ’’ذ،ظ،ز، ض‘‘اور ’’س،ص،ث‘‘ میں جو فرق ہے وہ صحیح تلفظ اور ادائیگی سے ظاہر کرے۔ ایک حرف کی جگہ دوسرا حرف نہ پڑھے۔
اگر کسی سے کوئی حرف ادانہیں ہوتا جیسے ’’ح‘‘ کی جگہ ’’ہ‘‘ پڑھتا ہے یا عین ادا نہیں کرسکتا یا ’’ث،س،ص‘‘ سب کو سین ہی پڑھتا ہے تو صحیح پڑھنے کی مشق کرنا لازم ہے۔اگر صحیح پڑھنے کی محنت نہیں کرے گا تو گناہ گار ہوگا اور اس کی کوئی نماز صحیح نہیں ہوگی،البتہ اگر محنت سے بھی درستگی نہ ہو تو مجبوری کی بنا پر نماز صحیح ہے۔
اگرحروف کی صحیح ادائیگی کر سکتا ہے لیکن ایسی بے پروائی سے پڑھتا ہے کہ ’’ح‘‘ کی جگہ ’’ہ‘‘ اور ع کی جگہ ہمزہ پڑھ جاتا ہے، صحیح پڑھنے کا اہتمام نہیں کرتا توبھی گنہگار ہے اوراس کی نماز صحیح نہیں ہوتی۔
جوسورت پہلی رکعت میں پڑھی تھی وہی سورت دوسری رکعت میں پھر پڑھ لی تو بھی کوئی حرج نہیں، لیکن بلاضرورت ایسا کرنا بہتر نہیں۔
قرآن مجید میں سورتیں جس ترتیب سے لکھی ہوئی ہیں نماز میں اسی طرح پڑھنا چاہیے۔ یعنی جب پہلی رکعت میں کوئی سورت پڑھے تودوسری رکعت میں اس کے بعد والی سورت پڑھے، اس سے پہلے والی سورت نہ پڑھے، کیونکہ اس طرح پڑھنا مکروہ ہے لیکن اگر بھولے سے اس طرح پڑھ لے تو مکروہ نہیں۔
جب کوئی سورت شروع کرے تو بلا ضرورت اس کو چھوڑ کر دوسری سورت شروع کرنا مکروہ ہے۔
جس کو نماز بالکل نہ آتی ہو یا نیا نیا مسلمان ہوا ہو وہ پوری نماز میں سبحان اللہ،الحمدﷲ وغیرہ پڑھتا رہے تو فرض ادا ہوجائے گا لیکن نماز مسلسل سیکھتا رہے، اگر نماز سیکھنے میں کوتاہی کرے گا تو بہت گنہگار ہوگا۔
مدرک پرقراء ت نہیں، امام کی قراء ت تمام مقتدیوں کی طرف سے کافی ہے اور حنفیہ کے نزدیک امام کے پیچھے قراء ت کرنا مکروہ ہے۔
مسبوق کی پہلی دونوں رکعتیں یا ایک رکعت چھوٹ جائے تو آخر میں ان میں قراء ت کرنا فرض ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ امام کے ہوتے ہوئے مقتدی کو قراء ت نہیں کرنی چاہیے،البتہ مسبوق کاچونکہ ان رہ جانے والی رکعتوں میں کوئی امام نہیں ہوتا، اس لیے اسے قراء ت کرنی چاہیے۔
امام پر فجر کی دونوں رکعتوں میں اور مغرب و عشا کی پہلی دو رکعتوں میں چاہے قضا ہوں یا ادا اور جمعہ، عیدین اور تراویح کی نماز اور رمضان کے وتر میں بلند آواز سے قراء ت کرنا واجب ہے۔
منفرد کو فجر کی دونوں رکعتوں میں اور مغرب وعشا کی پہلی دو رکعتوں میں اختیار ہے، چاہے بلند آواز سے قراء ت کرے یا آہستہ آواز سے۔ بلند آواز کی فقہاء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ نے یہ حد لکھی ہے کہ کوئی دوسرا شخص سن سکے اور آہستہ آواز کی یہ حد لکھی ہے کہ خود سن سکے،دوسرا نہ سن سکے۔[ دوسرا قول یہ ہے کہ آہستہ آواز کی کم سے کم حد یہ ہے کہ الفاظ اور حروف صحیح اداہوں، آواز سنے یا نہ سنے۔]
امام اور منفرد پر ظہرو عصر کی تمام رکعتوں میں اور مغرب و عشا کی آخری رکعتوں میں آہستہ آواز سے قراء ت کرنا واجب ہے۔
جو نفل نمازیں دن کو پڑھی جائیں ان میں آہستہ آواز سے قراء ت کرنا چاہیے اور جو نفلیں رات کو پڑھی جائیں ان میں اختیار ہے۔
منفرد اگر فجر، مغرب اور عشا کی قضا دن میں پڑھے تو ان میں بھی اس کو آہستہ آواز سے قراء ت کرنا واجب ہے۔ اگر رات کو قضا پڑھے تو اس کو اختیار ہے۔
سورت کے شروع میں بسم اللہ پڑھنا
نمازمیں سورہ فاتحہ کے بعد جب کوئی سورت شروع کرے تو بسم اللہ کہہ کر شروع کرے اور اگر دو رکوع والی سورت پڑھے تو سورت کے شروع میں بسم اللہ پڑھے اور دوسری رکعت میں جب اسی سورت کا دوسرا رکوع شروع کرے تو بسم اللہ نہ پڑھے۔